مدرسہ ریپ کیس: مجرم چھوٹا شمس الدین ہے یا بڑا شمس الدین؟

ایک مدرسے کے 10 سالہ بچے کے مبینہ ریپ کا کیس اس وقت نیا رخ اختیار کر گیا جب مرکزی ملزم شمس الدین کی بجائے مدرسے کے ہی ایک طالب علم، جن کا نام بھی شمس الدین ہے، پر ملزم ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔

وقوعے کے بعد علاقے کی پولیس نےمدرسےکوسیل کردیا(مانسہرہ پولیس)

گذشتہ ہفتے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں ایک مدرسے کے 10 سالہ بچے کے مبینہ ریپ کا کیس نیا رخ اختیار کر گیا جب مرکزی ملزم شمس الدین کی بجائے مدرسے کے ایک اور طالب علم، جن کا نام بھی شمس الدین ہے، پر ملزم ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) مانسہرہ کے امیر مفتی کفایت اللہ نے 30 دسمبر کو ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ مدرسے میں دو بچے اور ہیں جن میں سے ایک کا نام شمس الدین اور دوسرے کا شفیع اللہ ہے، اور ان دونوں کی متاثرہ بچے سے لڑائی ہوئی تھی اور ان کے تشدد سے متاثرہ بچہ زخمی بھی ہوا۔

انھوں نے مزید کہا کہ باقی معاملات ہسپتال میں ہوئے اور اپنی مرضی سے ایف آئی آر درج کروائی گئی کیونکہ متاثرہ بچے کے والدین کو قانون کا زیادہ پتہ نہیں تھا۔

’یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ بچے کے ریپ میں مرکزی ملزم استاد شمس الدین ملوث ہے یا طالب علم شمس الدین۔ ہم متاثرہ والدین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ہم نے اس کیس کے لیے علما کی ایک کمیٹی بنائی ہے جو خود بھی تحقیقات کرے گی۔ یہ سب کچھ این جی اوز کی ایما پر کیا جا رہا ہے۔‘

مانسہرہ پولیس نے اس کیس میں مرکزی ملزم قاری شمس الدین، مدرسے کے دو طالب علموں شمس الدین اور شفیع اللہ سمیت مدرسے کے سربراہ قاری شجاعت اور ان کے بھائی عبداللہ کو گرفتار کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مانسہرہ پولیس کے ضلعی سربراہ صادق بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مفتی کفایت اللہ نے پریس کانفرنس اس لیے کی کیوں کہ اس مدرسے کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے اور پریس کانفرنس کرنا ’ان کا سیاسی مقصد ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا جہاں تک ملزمان کی بات ہے تو اس میں ایک ملزم 35 سالہ قاری شمس الدین ہے، جسے ایف آئی آر درج ہونے کے تین دن بعد گرفتار کیا گیا، جب کہ بچے کے ساتھ پڑھنے والے دو اور لڑکوں 15 سالہ شمس الدین اور 18 سالہ شفیع اللہ بھی حراست ہیں۔

صادق بلوچ کا کہنا تھا کہ ملزم قاری شمس الدین نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کیا اور بچے کی ابتدائی طبی رپورٹ میں ریپ کی طبی علامات موجود ہیں لیکن مقامی میڈیا میں جو رپورٹ ہوا کہ 100 مرتبہ ریپ کیا گیا تو اس میں کوئی صداقت نہیں۔

ان کا موقف تھا کہ ایک 10 سالہ بچے کے ساتھ اتنی مرتبہ زیادتی شاید ممکن نہیں۔ انھوں نے بتایا اس کیس میں ایک بڑا قاری شمس الدین ہے اور ایک چھوٹا شمس الدین ہے اور ساتھ میں ایک اور طالب علم شفیع اللہ ہے، جنہیں گرفتار کیا گیا۔ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ چھوٹے شمس الدین اور شفیع اللہ نے مبینہ طور پر متاثرہ بچے کو تین دین تک مدرسے کے ایک  کمرے میں بند رکھا اور اس پر تشدد کرتے رہے۔

صادق بلوچ کے مطابق ’یہ بات سامنے آئی ہے کہ قاری شمس الدین نے بچے کے ساتھ ریپ کے بعد اسے دو دیگر بچوں کے حوالے کیا، جو متاثرہ بچے کے گاؤں ہی کے رہائشی تھے، اور انہیں کہا کہ اسے سنبھالو تاکہ یہ باہر نہ نکل سکے، اسی وجہ سے اسے تین دن تک کمرے میں بند رکھا گیا۔‘

عدالتی کارروائی کے بارے میں صادق بلوچ نے بتایا کہ مرکزی ملزم کا پانچ دن کا ریمانڈ لیا گیا ہے اور عدالت میں پیشی کے دوران پولیس سارے ثبوت پیش کرے گی اور متاثرہ بچے کا بیان عدالت میں سامنے آئے گا جس سے واضح پتہ چل جائے گا کہ مرکزی ملزم بڑا شمس الدین ہے یا چھوٹا شمس الدین۔

متاثرہ خاندان کیا کہتا ہے؟

مفتی کفایت اللہ کی پریس کانفرنس کے بعد متاثرہ بچے کے چچا  محمد جاوید نے منگل کو ایبٹ آباد پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو میں کہا ’میرے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے علما اس کیس کو کمزور بنا کر اسی مدرسے کے ایک چھوٹے بچے پر ریپ کا الزام لگاتے ہوئے ملزم کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

’ہمیں طعنے دیے جا رہے ہیں کہ آپ لوگ کسی این جی او والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اسی کی ایما پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں حالانکہ میں خود بھی مدرسے میں پڑھا ہوں اور مدرسے کے بالکل خلاف نہیں اورنہ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی ہے۔‘

محمد جاوید نے مزید بتایا ’اس کیس میں میرے بھتیجے نے جس ملزم کا نام لیا وہ قاری شمس الدین ہے لیکن ہمارے کیس کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹروں نے ہمیں سب کچھ بتایا کہ بچے کے ساتھ کس قسم کا تشدد کیا گیا۔‘

ڈین این اے رپورٹ کب آئی گی؟

بالعموم ایک ریپ کیس میں ڈین این اے رپورٹ کو اہم ثبوت مانا جاتا ہے اور اس سے پتہ چل سکتا ہے کہ ریپ کا اصل مجرم کون ہے۔

اس کیس میں ڈی این اے رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔ اس حوالے سے پولیس کے ضلعی سربراہ نے بتایا کہ ڈی این اے رپورٹ کے لیے نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں لیکن رپورٹ ابھی تک نہیں آئی کیونکہ ڈی این اے کے لیے زیادہ تر نمونے پنجاب بھجوائے جاتے ہیں جن کے آنے میں وقت لگتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان