نیا سال 2020 کیسا رہے گا؟

نئے سال کے لیے چند پیش گوئیاں، جن کے لیے ہمیں کسی طوطے کی مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔

نیا سال بھی گذشتہ برسوں کی ’ فوٹو سٹیٹ‘ ہی ثابت ہوگا اورعالمی منڈی میں انسانی خون سستا اور تیل مہنگا ہو گا۔(پکسا بے)

نئے سال کے متعلق فلمی اور غیر فلمی ستاروں نے کچھ غیر معتبر سی پیش گوئیاں کی ہیں، ملاحظہ فرمائیے :

1۔ نیا سال بھی گذشتہ برسوں کی ’ فوٹو سٹیٹ‘ ہی ثابت ہوگا اورعالمی منڈی میں انسانی خون سستا اور تیل مہنگا ہو گا۔

2۔ غالب اور فیض شناسوں میں مزید کمی آئے گی، البتہ استاد امام دین گجراتی کے کلام پر تحقیق کا عمل تیز ہو گا۔ نیز بیک وقت کئی شعرائے کرام عصر حاضر کے امام دین قرار پائیں گے۔ حسن کارکردگی کے سالانہ استاد امام دین گجراتی ایوارڈ کا اجرا بھی ہو گا۔ امسال کوئی ذہین طالب علم امام دین پر پی ایچ ڈی کی ڈگری پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔

3۔ خواتین میں لباس کا ناجائز استعمال فروغ پائے گا اور بعض ’مستورات‘ عریانی کے لیے ستر پوشی سے کام لیں گی، نیز ستاروں نے ہمیں نئے سال کے چند ایسے  فیشنوں کے درشن بھی کرائے ہیں کہ اگر الفاظ میں ان کا نقشہ کھینچا جائے تو پیش گوئی ہٰذا سنسر کی زد میں آ جائے۔

4۔ ایل ایف او والے اپنے گریباں میں جھانکے بغیر این آر او والوں پر تبرا ارسال کرتے رہیں گے۔

5۔ ملک کو پولیو، ٹی بی، خناق، خسرہ، ڈینگی اور آشوب آگہی جیسی مہلک بیماریوں سے پاک کرنے کے لیے جہدِ مسلسل جاری رہے گی اور ان خطرناک امراض میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ نیز محکمہ صحت اور جہادی قلم کار لوگوں کے جذبات اور جانوں سے کھیلنے کا شغل جاری رکھیں گے۔

6۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و ہنود کی مکروہ سازشیں ناکام ہوں گی۔ البتہ اس کے ماننے والوں کو اپنے ہی علما اور مبلغین سے شدید خطرات درپیش رہیں گے۔

7۔ چند بزرگ رہنما، دانشور اور مذہبی پیشوا جو اپنی طبعی عمر پوری کر کے اوور ٹائم لگا رہے ہیں، راہی بقا ہو جائیں گے، تاہم قوم کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہو گا کیونکہ یہ اس سے بھی بڑی تعداد میں اور پیدا ہو جائیں گے۔

8۔ کاروباری اور بیروکریسی کو صاف ستھرا کرنے والے آرڈیننس کی طرز پر سال کے وسط تک سیاست دانوں کے حق میں بھی پردہ غیب سے ایسا ہی ایک آرڈیننس ظہور پذیر ہو گا، جس کے بعد گناہ گار عوام کو چھوڑ کر باقی سب آئیں کی دفعات 63-62 کا عملی نمونہ بن جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

9۔ کوئی عالمی رہنما دنیا سے یوں چپ چاپ گزر جائے گا، جیسے بشریٰ انصاری کے پاس سے دبے پاؤں وقت گزرا ہے۔

10۔ دنیا کی کسی نامعلوم ریاست میں دشتِ رائیگاں کا سفر جاری و ساری رہے گا اور ببول کے درخت سے انگور کے خوشے توڑنے اور خشکی پر کشتیاں چلانے کی پریکٹس ہوتی رہے گی۔

11۔ اگر موجودہ حکومت برقررار رہی تو سامان تعیش مثلاً آٹا، چینی، چاول، گھی، پٹرول، ڈیزل، گیس وغیرہ لوگوں کی پہنچ سے مکمل باہر ہو جائیں گی۔ نیز پیاز گرانی کی اس معراج کو چُھو لیں گے کہ جُوتے کھانے آسان ہو جائیں گے۔

12۔ علمی خزانے رزق دیمک بنیں گے اور علم و دانش کے ایسے ایسے ساہوکار 21ویں صدی کے سرسید کہلائیں گے، جو سرسید احمد خان کا پورا نام لکھنے پر بھی قادر نہ ہوں گے۔ نیز ’جائے استاد خالی است‘ کا نعرہ مستانہ بلند کر ایسے شعرا کے درمیان فراز کی مسند پر فروکش ہونے کا دنگل متوقع ہے، جنہیں فراز کے پانچ شعر بھی یاد نہ ہوں گے۔

13۔ تھانہ کلچر اور انصاف کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی، البتہ یہ تبدیلیاں کوتاہ  نظر عوام کو نظر نہ آ سکیں گی۔

14۔ نان ایشوز پرامسال بھی دھرنا بازیان جاری رہیں گی۔ نیز میڈیا کارکن خالی پیٹ زنجیر پہن کر رقص کرتے رہیں گے۔

15۔ فخزِ پاکستان اور محسنِ پاکستان کے ریوڑ سے بھی چند دانے دنیا سے کوچ کر جائیں گے مگر قوم کو اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ یہ ریوڑ کافی بڑا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

16۔ شادیوں خانہ آبادیوں اور آبادی میں اضافے کی رفتتار مزید تیز ہوگی اور ہم ہر سال کم از کم  سوئٹزرلینڈ کی آبادی کے برابر بچے پیدا کرتے رہیں گے تا کہ افرادی قوت میں اضافہ کر کے مہذب دنیا کی صف میں جگہ بنائی جا سکے۔

17۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی جیسے مقدس ادارے قوم کو ملی یکجہتی کی لڑی میں پروئے رکھیں گے۔ امسال چھ متنازع شقوں  اور چار عیدوں کا قوی امکان ہے۔

18۔ ناسا جیسے خلائی ادارے کئی اور سائنسی خلائی تحقیقی سٹیشن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ادھر کوئی برگزیدہ قوم ہوائی قلعے تعمیر کرتی رہے گی۔  نیز کسی نامعلوم سرزمین پر عقائد، اوہام، اندھی تقلید اور التباسات کی دنیا آباد و شاد رہے گی۔

19۔ امسال ہم ایسے بہت سے ’مقبول عام‘  کالم نگار منظر عام پر آئیں گے، جو اپنا لکھا خود بھی پڑھنے سے قاصر ہوں گے۔

نوٹ: یہ پیش گوئیان سنتے وقت ہمیں اجرام فلکی  اور فلمی ستاروں کا ایک ناہنجار سا طعنہ بار بار سننے کو ملا کہ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ اب ان سادہ لوگوں کو کون سمجھائے کہ کچھ سرزمینوں  پر شرم و حیا کی ٹکے کی وقعت نہیں ہوتی۔

آخرِ شب جب ہم ان ستاروں سے نئے سال کی پیش گوئیاں کشید کر چکے تو یہ کہہ کر غریب خانے کی طرف روانہ ہو گئے کہ بھولے بادشاہو! جب نگاہوں میں حیا  نہ رہے تو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ