محبت کمرشل ہو گئی ہے بھیا!

خدا نہ کرے کہ کرپٹ لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے والی اس حکومت کی عوام سے محبت بھی محدود مدت والی پیشکش ثابت ہو۔

(کری ایٹیو کامنز)

نیلی آنکھوں، شہابی گالوں اور کالی زلفوں والی اس پری پیکر کے ساتھ پریمی جی کی پہلی ملاقات ایک دو نمبر ہاؤسنگ سوسائٹی کے دفتر میں ہوئی تھی۔

آپ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو مغربی تیور کی حامل ایک نازک اندام، لچکیلی اور معطرسی خاتون کمپیوٹر کے کی بورڈ پر کھلے گیسوؤں کے ساتھ جھکی شام کیے بیٹھی تھی۔

سنہری چشمہ چشمِ قاتل پر مستعد پہرے دار کی طرح تعینات تھا اور ذوقِ چُست لباسی و شوقِ خود نمائی کے طفیل نسائی وجود کے نشیب و فراز قیامت ڈھا رہے تھے۔ اگرچہ پریمی سرکار دل ہتھیلی پر لیے پھرتے تھے اور خواتین کے ساتھ ’دیرینہ تعلقات‘ قائم کرنے میں خاصے تجربہ کار واقع ہوئے تھے مگر کھلم کھلا جسمانی خوبصورتی کے ایسے خطرناک مظاہرے نے انہیں زندگی میں پہلی مرتبہ نروس کر دیا۔ آپ کے گلا کھنکھارنے پراس حسینہ گلبدن نے سر اٹھا کر زلفوں کو جھٹکا دیا تو ایک برقِ بلا کوند گئی۔ پہلا جملہ آبشار کے دھارے کی طرح ان کے کانوں سے ٹکرایا، ’جی فرمائیے؟‘

تراشیدہ لہجے کی کھنک سے پریمی جی کےاندرکی شہنائی بج اُٹھی اور دل کے تار جیسے وجاہت عطرے کی کسی دلفریب سی دھن پرتھرکنے لگے۔

پریمی میاں نے آداب کہنے کے انداز میں سرکو ہلکا سا خم دیا اور شائستگی سے پوچھا، ’مزاج گرامی کیسے ہیں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ سیمیں بدن چشمے کے پیچھے سے مستانیاں پھڑکا کر اسی لہجے میں بولی، ’لکھنؤ کی نہیں ہوں حضور۔‘ ساتھ ہی اس نے بظاہر لاپروائی سے ایک نظر پریمی جی کے شاندار سُوٹ اور ان کے ہاتھ میں قیمتی گاڑی کی چابی پر ڈالی اور ایک ہلکے دل گداز قہقہے سے جلترنگ سی بج اٹھی۔ مہ جبیں نے دلفریب ادا سے اپنی ریوالونگ چیئر کو ساتھ والی کرسی کی جانب ہلکا سا موڑا اور اپنی دودھیا کلائی میں گولڈن چوڑیاں کھنکا کر ہاتھ کے اشارے سے انہیں وہاں تشریف رکھنے کو کہا۔ ماہر نشانہ باز کی طرح پے در پے تیر ایسے قرینے سے مارے گئے تھے کہ پریمی جی کے دل نے ان کے سینے میں اودھم مچا دیا۔

دراز قد نشانہ باز کرسی سے اُٹھ کر بپھرے چناب جیسی ڈولتی کمرکے ساتھ قیامت کی چال چلتی الماری سے ان کی فائل نکالنے کے لیے گئی تو پریمی سرکار کے دلِ بے قابو کی حالت وہی تھی، جو بارشوں کے بعد راولپنڈی کے نالہ لئی کی ہوتی ہے۔ اگرچہ چائے کے دوران ہاؤسنگ سوسائٹی کی خوبیاں سنتے پریمی جی پراس کی اصلیت آشکار ہو چکی تھی مگر بے اختیار ان کا دلِ ناداں ٹھگے جانے کے لیے مچلنے لگا۔ عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والے پرایک بنتِ حوا کے حسن کا آسیب سوار ہو چکا تھا۔ جو ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتا تھا، آناً فاناً اس کی ناک پر جیسے ہیلی کاپٹر لینڈ کر گیا۔

ایک گھنٹے کی ملاقات میں آنکھوں نے آنکھوں سے بہت سی باتیں اوردلوں نے بہت سی منازل طے کر لیں۔ پریمی جی دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے اٹھے تو اس رشکِ چمن نے خدا حافظ کہتے ہوئے مصافحے کے لیے اپنا مکھن جیسا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ ہاتھ تو ان کے ساتھ ہو چکا تھا کہ وہ نام نہاد پلاٹ کی پہلی قسط کا چیک کاٹ کر دے بیٹھے تھے مگر اب جو ہاتھ میں ہاتھ آیا تو سورج سوا نیزے پر آ گیا۔ دل تو جیسے باقاعدہ آپ کی پسلیاں توڑنے پر تُل گیا۔

تاریخی حقیقت ہے کہ کوہ، دشت، صحرا، سمندر اور خلاؤں پر حکمرانی کرنے والا دل گیسو، ابرو اور ساڑھی کے بلاؤز کے سامنے آن کی آن میں ڈھیر ہو جاتا ہے۔

پریمی میاں کے ساتھ بھی یہی حادثہ ہوا۔ ان کی مت ماری گئی اور باقاعدہ پریم کہانی کی فلم چل پڑی۔ پریمی جی عشوہ و ادا پر فریفتہ تھے تو حسینہ ان کی دولت پر۔ زندگی کی حرارت سے بھرپور ملاقاتوں میں حیاتیاتی سرگرمیاں بھی جاری رہیں اور ناؤ نوش کا ساماں بھی ہوتا رہا۔ دولتِ حسن بھی فراخ دلی سے لُٹتی رہی اور پریمی میاں کی کمائی بھی۔ حسن و شباب کی گھنگھور گھٹائیں بھی مسلسل برستی رہیں اور کالے دھن کے بادل بھی۔ محبوب انہیں ہر ملاقات میں یقین دہانی کر اتا رہا کہ وہ اس کی پہلی اور آخری محبت ہیں۔ وہ خود بھی تا انجامِ محبت اسی دروغ گوئی پر قائم رہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ’وہ بھی آشنا تھا سب رستوں سے ۔۔۔ سفر میرا بھی یہ پہلا نہیں تھا۔‘

بدقسمتی سے پریمی جوڑا ہرنام سنگھ اوراجیت کور کی طرح حقیقت پسند نہیں تھا۔ شادی کی پہلی رات ہرنام سنگھ نے اپنے سابقہ معاشقوں کی داستان دراز کی تو وہ دراز تر ہوتی گئی، حتیٰ کہ زلفِ شب بھیگ گئی۔ سردار کی دلہن اجیت کور نے نہایت تحمل کے ساتھ یہ فسانہ ہائے محبت سماعت کیے۔ ہرنام سنگھ داستانِ عشق سناتے تھک گیا تو اجیت کور نے توبہ شکن انگڑائی لی اورکمبل اوڑھتے ہوئے بولی، ’سرتاج! مجھے یقین تھا کہ اگر ہمارے ستارے مِل گئے ہیں تو کرتُوت بھی ضرور ملتے ہوں گے‘ یہ جوڑا بھی پیشہ ور محبت باز اور ’ملنسارانہ چال چلن‘ کا حامل تھا مگروہ ایک دوسرے سے یہ حقیقت کامیابی سے چھپاتے رہے۔

پریم کہانی چلتی رہی اورپریمی میاں کے اثاثے تیزی سے محبت کی نظرہوتے رہے۔ محبوب کی فرمائشیں تھیں کہ تھمنے میں ہی نہیں آتی تھیں اور پریمی کی دولت تھی کہ لٹنی ہی چلی گئی۔ آخر ایک سورج ایسا بھی طلوح ہوا کہ پریمی جی سڑک پر تھے اور ان کا محبوب نئی گاڑی پر۔ ان حالات میں جب پریمی سرکار کنگلے ہوئے تو محبوب نے بھی دل کا شٹر گرا دیا اور موبائل سم تبدیل کر لی۔ نیلی آنکھوں والی پیشہ ور محبت باز نے ’دیرینہ تعلقات ‘ کے لیے نیا دل تلاش کر لیا اور پریمی سرکار نے محبوب کی گلی کی خاک چھاننے پر کمر کس لی۔

انہوں نے ستم گر کی گلی کے بڑے پھیرے لگائے۔ ایک مرتبہ تو اس کے دروازے پر لوٹا بھی ٹانگ آئے مگر اس کا مکان اور دل دونوں سنگ مرمر کے تھے، سو ان کے ساتھ سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اگر نازِ عشق کے پاس حسن کو چکمہ دینے کا تجربہ تھا تو حسن کی ملکہ کو آنکھیں پھیرنے میں ملکہ حاصل تھا، سو کھایا پیا ہضم اور دیا دلایا حساب برابر ہوا۔ اب جب ہم پریمی میاں سے ان کے کسی نئے عشق کا پوچھتے ہیں تو وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبت کمرشل ہو گئی ہے بھیا۔

یہ آج کے ڈیجیٹل عہد کی اس محبت کی دردناک داستان ہے، جس میں دعویٰ کیا جاتاہے کہ میں ازل سے تمہاری ہوں اورابد تک تمہاری رہوں گی۔ استاد فرماتے ہیں کہ اس ازل سے ابد تک کی درمیانی مدت تین سے چار ماہ ہوتی ہے۔ گویا:

میرا یہ دل تمہاری ہی محبت کے لیے ہے
مگر یہ پیشکش محدود مدت کے لیے ہے

’اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا‘ پریمی میاں کا انجام دیکھ کر ہمیں محبت کے اس برانڈ سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ عوام ان کی پہلی اور آخری محبت ہیں مگر مہنگائی کی یہی صورت حال برقرار رہی تو کچھ عجب نہیں کہ ایک دن عوام بھی پریمی میاں کی طرح سڑک پر ہوں۔

خدا نہ کرے کہ کرپٹ لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے والی اس حکومت کی عوام سے محبت بھی محدود مدت والی پیشکش ثابت ہو اور اس کے جانے کے بعد ملک کے شہریوں سے ان کے نئے عشق کا پوچھا جائے تو وہ اپنی بنیان اور دھوتی سنبھالتے ہوئے کہیں، ’محبت کمرشل ہو گئی ہے بھیا!‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ