نہ شیر دھاڑا نہ شیرنی کو جلال آیا

خیر بات ہو رہی تھی ’ڈٹ جانےکا شکریہ مریم‘ کی۔ اسے نظر کا دھوکہ سمجھیں یا میرا گمان مجھے لگا کہ لکھا ہے ’ڈر جانے کا شکریہ مریم۔‘ میری دانست میں یہ ٹرینڈ حسب حال تھا مگر کارکنان تو مریم صاحبہ کے ڈٹ جانے پر نہال تھے۔

مریم نواز کا انداز سیاست بھی عجیب ہے۔ ہو نہ ہو یہ کارکنان کو بلڈ پریشر کا مریض بنا کر چھوڑیں گی (اے ایف پی)

 دو روز پہلے کی بات ہے جب مسلم لیگ ن کے رہنما ’جھینپے جھینپے میرے سرکار نظر آتے ہیں‘ کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ ایسے میں کسی دل جلے ن لیگی کو حسرتوں کے داغ کریدنے کا شوق چڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر ’ڈٹ جانے کا شکریہ مریم‘ کا ٹرینڈ گردش کرنے لگا۔ یہ ’شرم کرو حیا کرو‘ مہم کا آخری حربہ تھا۔

اس ٹوئٹر ٹرینڈ کے نتیجے میں شرم آئے گی یا نہیں، کارکنان اس حوالے سے آخری دم تک غیریقینی کا شکار رہے۔ یہاں تک کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے بل پر ووٹنگ کا وقت آن پہنچا۔ ’شرم کرو حیا کرو‘ نامی اخلاقی مہم کا آغاز اپنے دور حکومت میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے فرمایا تھا۔ تاہم اب وہ  شرم و حیا کی ذیل میں لگنے والے ہر قسم کے سیاسی نعروں سے اظہار لاتعلقی فرما چکے ہیں۔ کارکنان چونکہ شرم دلانے کی اس مہم میں اتنے طاق ہو چکے ہیں لہذا انہوں نے اپنی پارٹی کو شرم کا آئینہ دکھانا ضروری سمجھا۔

خیر بات ہو رہی تھی ’ڈٹ جانےکا شکریہ مریم‘ کی۔ اسے نظر کا دھوکہ سمجھیں یا میرا گمان مجھے لگا کہ لکھا ہے ’ڈر جانے کا شکریہ مریم۔‘ میری دانست میں یہ ٹرینڈ حسب حال تھا مگر کارکنان تو مریم صاحبہ کے ڈٹ جانے پر نہال تھے۔ کسی نے تصویر پوسٹ کر رکھی تھی جس میں غیض و غضب میں لال پیلا شیر اور مریم نواز ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ دونوں کے چہرے جلال سے تنے ہوئے تھے جب کہ پوسٹر کے نیچے لکھا تھا: ’وہ ڈٹی ہوئی ہے محاذ پر۔‘ ن لیگی کارکنان کی اس مہم کا یہ نتیجہ نکلا کہ لوگ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے یوم سے ایک رات پہلے تک کچھار میں آرام فرما شیر اور شیرنی کا انتظار کرتے رہے۔ نہ شیر دھاڑا نہ شیرنی کو جلال آیا۔

سوشل میڈیا کے یہ جذباتی کارکن بتانے سے قاصر تھے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے پر مریم نواز جاتی عمرہ کے کس کمرے میں ڈٹ گئیں؟ کیا ڈٹ جانے کا یہ عمل انفرادی تھا؟ یا مریم نواز نے بھی دل ہی دل میں ڈٹ جانے کی نیت باندھ کر چپ کا روزہ نہ توڑنے کا قصد کیا؟ آیا کہ ڈٹ جانے کے ان مناظر کا راوی نے خود مشاہدہ کیا؟ مریم پارٹی کے کس اجلاس میں ڈٹ گئیں؟ کیا مریم صاحبہ نے بذریعہ ٹیلی فون پارٹی کی قیادت کو اپنے ڈٹ جانے کے حتمی فیصلے سے آگاہ کیا؟ اور اگر مریم واقعی ڈٹ گئی تھیں تو ڈٹی ہوئی مریم کے عزم و حوصلے کو ڈھیر کس نے کیا؟ اگرچہ ڈٹ جانے کا وقت گزر چکا ہے تاہم یہ سوال اب بھی غور طلب ہیں۔

خواجہ آصف صحافی عاصمہ شیرازی کو انٹرویو میں کہنے لگے کہ ’مریم کے سٹیک بہت ہیں، اس کا باپ ملکی بقا و جمہوریت اور صحت کی جنگ لڑ رہا ہے، اس کا چچا جنگ لڑ رہا ہے، اس کے چچا زاد بھائی یوسف عباس اور حمزہ قید ہیں۔ جب آپ کا اتنا کچھ داؤ پہ لگا ہو کہ جائیدادیں چھن سکتی ہیں، والدہ کوچ کر جائے، قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں تو۔۔۔۔‘ خیر مختصراً یہ کہ خواجہ صاحب نے بتایا کہ مریم نواز باہر جانا چاہتی ہیں۔ ویسے ان کی بات سن کر مجھے تحریک انصاف کا چاہنے والا وہ برگر بچہ یاد آ گیا جو کہتا تھا کہ ’ہمیں اپنی پولیس مار رہی ہے، ہم انقلاب کیسے لائیں گے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے خاندانی کاروبار، جائیدادوں، نئے پرانے سچے جھوٹے مقدموں اور باپ چچا کی سیاسی غلطیوں کا بوجھ مریم کے کندھوں پر ہے۔ مریم انہی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنا کر سیاست تو کر سکتی ہیں اور شاید کامیاب بھی ہو سکتی ہیں مگر فی الحال مریم نواز کسی سیاسی انقلاب کا سبب بن جائیں یہ ممکن نہیں۔ مریم نواز سیاسی کاروبار میں بھاؤ تاؤ تو کر سکتی ہیں مگر ڈٹ جانا فی الحال ان کے بس کی بات نہیں۔

مجھ سے پوچھیں گے تو مجھے موروثی سیاست میں ویسے بھی کوئی دم نظر نہیں آتا اور میری جانب سے تو ایسی ’ابا سے وراثت میں ملی قیادت‘ کا خدا ہی حافظ، تاہم محترم سہیل وڑائچ کا مریم نواز کے حوالے سے تجزیہ سو فیصد درست ہے کہ مریم نواز کی سیاست ان کے والد کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی سیاست کا محور و مرکز ان کے والد ہیں۔ اس میں کوئی غیرفطری بات بھی نہیں کہ بیٹی کو باپ کی فکر ہو لیکن پھر ناقدین جب یہ کہتے ہیں کہ مریم نواز کی سیاست دراصل ووٹ کو عزت دو نہیں بلکہ ’ابو بچاؤ مہم‘ ہے تو یہ کسی حد تک درست بھی لگتا ہے ورنہ عوام اور جمہوریت کی خاطر ڈٹ جانے کے کتنے ہی مواقع آئے مگر مریم کہیں نظر نہیں آئیں۔

مریم نواز کا انداز سیاست بھی عجیب ہے۔ ہو نہ ہو یہ کارکنان کو بلڈ پریشر کا مریض بنا کر چھوڑیں گی۔ کبھی تو جوش خطابت میں وقت کے فرعونوں کے اہرام ڈھا دینے کی دھمکی دیتی ہیں اور کبھی اپنے والد کے محل سرا کے کسی حرم خانے میں گم نام سی اداس خاموش شہزادی بن جاتی ہیں۔ بیچارے ن لیگی کارکن، نظریاتی لوگ اور مجھ جیسے سُن گُن لینے والے صحافی حسرت سے مریم نواز کا ٹوئٹر اکاؤنٹ چیک کرتے ہیں کہ شاید کوئی دبنگ بیان، کوئی اشارہ کوئی نعرہ مل جائے۔ سیاسی رہبری تو نہیں ملتی البتہ ان کے اکاؤنٹ سے مکھن کے تڑکے والا مرغ بنانے کی ترکیب ضرور مل جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ