چمچ اور چھری سے مجسمے بنانے والا طالب علم

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب کامران ارمان خان نے جب افغان صدر اشرف غنی کو اپنا تخلیق کردہ مجسمہ پیش کیا تو اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

7

کامران ارمان خان   افغانستان کے صدر اشرف غنی کو ان کا مجسمہ پیش کرتے ہوئے ۔ (تصویر: کامران ارمان خان)

عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم کامران ارمان خان نہ صرف مصور اور مجسمہ ساز ہیں بلکہ شاعری بھی کرتے ہیں۔ ادب سے لگاؤ انہیں ورثے میں ملا ہے۔

کامران ضلع مالاکنڈ کے ایک گاؤں میں پشتو شاعر دوست محمد عرف طالب جان کے ہاں پیدا ہوئے اور اس وقت عبدالولی خان یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں بی ایس کر رہے ہیں۔

کامران ارمان خان کو بچپن سے ہی خاکے اور پینٹنگ کا شوق ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نوجوان مصور نے یہ سب کسی سے سیکھا اور نہ ہی اس فن کے لیے باقاعدہ کسی سے کلاسز لیں، یہ مہارت ان کے خون میں شامل ہے۔

وہ کچھ سالوں سے خصوصی طور پر پشتون مشران، سماجی کارکنوں، ہنرمندوں اور مشہور شخصیات کے مجسمے اور پینٹنگز تیار کرچکے ہیں، جن میں ملالہ یوسفزئی اور ان کے والد ضیا الدین یوسفزئی، ڈاکٹر خالق زیار، صاحب شاہ صابر، رحمت شاہ سائل، کرن خان، ہارون باچا، غنی خان بابا، خوشحال خان خٹک، مشال خان، نقیب اللہ محسود، علی وزیر اور منظور پشتین شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی ماہ قبل جب انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کا اپنا تخلیق کردہ مجسمہ انہیں پیش کیا تو اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

کامران کا ماننا ہے کہ یہی وہ وجہ تھی جس کے سبب انہیں نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ دنیا بھر کے پشتونوں میں مقبولیت ملی۔

نوجوان مصور کا کہنا ہے کہ وہ مجسموں کو تراشنے کے لیے چھری، چمچ اور کیل کا استعمال کرتے ہیں جو انتہائی مشقت بھرا کام ہے۔

وہ مجسمے اور خاکے بنانے کے لیے موبائل فون پر تصویر سامنے رکھ کر بھی کام کرتے ہیں۔

کامران نے بتایا: ’میں یہ کام بغیر کسی معاوضے کے محض اپنے شوق کے لیے کرتا ہوں کیونکہ میرا خواب ہے کہ اپنے فن کے ذریعے اپنا اور اپنی قوم کا نام دنیا بھر میں روشن کروں۔‘

ان کے بنائے گئے کچھ فن پارے اوپر فوٹو گیلری میں دیکھیے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی