جسٹس عیسیٰ کیس: وکلا کو صدارتی ریفرنس خارج ہونے کی امید

پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے مطابق بدھ کی سماعت بہت اچھی رہی اور جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا ایف بی آر سے رجوع کرنا کیس کے لیے سود مند ہو گا۔

جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدراتی ریفرنس اس الزام میں دائر کیا گیا ہے کہ انھوں اپنے غیر ملکی اثاثے چھپائے ہیں (بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ)

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر صدارتی ریفرنس کو روکنے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت آخری مراحل میں ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ اگلے ہفتے مکمل ہو جائے گی۔

بدھ کو ہونے والی سماعت کے حوالے سے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس میں پیش رفت جسٹس عیسیٰ کیس میں سودمند ہے اور ممکن ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس خارج ہو جائے۔

درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال  کی سربراہی میں ہونے والی سماعت کے دوران پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر کے دفتر گئیں ہیں اور اسفتسار کیا ہے کہ ان کے نام پر جائیداد پر جو تفتیش چل رہی ہے اس کے بارے میں انھیں آگاہ کیا جائے۔  تاہم ایف بی آر نے ان کو ان کے اپنے ہی ریکارڈ تک رسائی نہیں دی۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس بات کی تصدیق کر کے کورٹ کو تفصیلات بتائی جائیں۔

واضح رہے کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدراتی ریفرنس اس الزام میں دائر کیا گیا ہے کہ انھوں اپنے غیر ملکی اثاثے چھپائے ہیں۔

وکلا کی رائے

ستمبر سے شروع ہونے والے اس کیس کی اب تک 26 سماعتیں ہو چکی ہیں جن میں سات وکیل دلائل دے چکے ہیں۔ ایک اور درخواست گزاز وکیل بلال حسن منٹو پیر کو دلائل دیں گے جس کے بعد توقع ہے کہ سماعت اگلے ہفتے ہی مکمل ہوجائے گی۔

درخواست گزار جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے خارج ہونے کے حوالے سے پرامید ہیں۔  

پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بدھ کی سماعت بہت اچھی رہی اور جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا ایف بی آر سے رجوع کرنا کیس کے لیے سود مند ہو گا کیونکہ ایف بی آر تعاون نہیں کر رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ان کا کہنا تھا کہ اب تک کے دلائل سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موقف مضبوط ہوا ہے۔ جبکہ وکیل حامد خان نے بتایا کہ کیس میں جتنی بھی بحث ہوئی ہے اس سے یہ لگ رہا ہے کہ جسٹس عیسیٰ ٰکے خلاف دائر ریفرنس خارج ہو جائے گا۔ 

اسی طرح جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ درخواست گزاروں کا کیس فیز ون یعنی پہلے مرحلے پر ہے اور تقریباً مکمل ہو چکا ہے، بس وفاق کے جوابی دلائل آنے ہیں۔

پہلے مرحلے کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس میں ریفرنس فائل ہونے کی وجوہات پر دلائل ہیں جبکہ فیز 2 سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے ممکنہ کارروائی ہے۔

ان کے مطابق: ’ابھی  پہلا مرحلہ ہی چل رہا ہے اور اگر ریفرنس خارج ہو گیا تو دوسرے مرحلے پر کیس نہیں جائے گا، لیکن اگر خارج نہ ہوا تو فیز ٹو پر دلائل ہوں گے۔‘

عدالتی امور کور کرنے والے سینیئر صحافی ناصر اقبال کا ماننا ہے کہ اگر جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا ایف بی آر جانا ثابت ہو گیا تو ان کے خلاف ریفرنس کمزور ہو جائے گا کیونکہ اہلیہ کا کہنا ہے کہ جب جائیداد ان کے نام پر ہے اور اس کے ٹیکس گوشوارے بھی وہ خود جمع کرواتی ہیں تو پھر جسٹس عیسیٰ سے پوچھ گچھ کیوں کی جا رہی ہے۔

ناصر اقبال نے کہا کہ اگر ایف بی آر جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سے تحقیقات کرتا ہے تو پھر دو صورتیں ہو جائیں گی، یا تو صدر ریفرنس واپس لے لیں گے یا پھر سپریم کورٹ کا بینچ خود ریفرنس کو خارج کر دے گا۔ 

کیس میں کب کیا ہوا؟ 

جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ گذشتہ سال مئی میں شروع ہوا جب ان کے خلاف صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا گیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام پر ہیں۔

اس معاملے پر مئی سے اگست 2019 کے درمیان سپریم جوڈیشل کونسل کی تین کارروائیاں ہوئی ہیں۔ 

اگست میں جسٹس عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی۔ انھوں نے موقف اپنایا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کاغلط استعمال کرکے سرویلنس کیا گیا۔

اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل سمیت دیگرصوبوں کی بار کونسلز نے بھی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستیں دائر کی اور جسٹس عیسیٰ کے خلاف جاری جوڈیشل ریفرنس کی کارروائی روکنے کی استدعا کی۔

ابتدائی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس عیسیٰ کے خلاف دو ریفرنس دائر ہوئے تھے۔ ایک صدر مملکت کا بذریعہ وزارت قانون، جس میں اہلیہ کی جائداد چھپانے کا الزام لگایا گیا جبکہ دوسرا ریفرنس لاہور کے ایک وکیل وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جس میں جسٹس عیسیٰ کی جانب سے ریفرنس کے جواب میں صدر کو لکھے خطوط کو بنیاد بنایا گیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے وکیل کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس کو اگست میں خارج کر دیا تھا تاہم صدارتی ریفرنس تاحال موجود ہے جب تک اس کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ نہیں آ جاتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان