کیا اقبال قاسم پاکستانی کرکٹ صحیح راہ پر چلا سکیں گے؟

نظریاتی طور پر کرکٹ بورڈ سے اختلاف کے باوجود کمیٹی میں کام کرنے کے فیصلے نے اقبال قاسم کی عزت و توقیر مزید بڑھا دی ہے۔

دھیمے مزاج کے کم گو اقبال قاسم پاکستان کے شریف النفس کرکٹر سمجھے جاتے ہیں۔(پی سی بی)

پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرکٹ کے معاملات اور مستقبل کی پالیسی سازی کے لیے گذشتہ سال ایک کرکٹ کمیٹی کا اعلان کیا تھا جس میں ابتدائی طور پر محسن خان، وسیم اکرم اور مصباح الحق کو رکھا گیا تھا۔

اس کمیٹی کی کوئی میٹنگ ہی نہ ہوسکی اور محسن خان اور بورڈ کے درمیان اختلافات کے بعد انھیں سبکدوش کرکے بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان خود سربراہ بن گئے تھے تاہم کمیٹی پھر بھی فعال نہ ہوسکی۔

وسیم خان بعد ازاں الگ ہوگئے اور بورڈ نے کسی نئے سربراہ کو مقرر کرنے کا اعلان کیا لیکن نہ کمیٹی بنی اور نہ سربراہ مقرر ہو پائے۔ 

اب چھ مہینے گزرنے کے بعد بورڈ نے ایک بار پھر کرکٹ کمیٹی کا اعلان کیا ہے۔

بورڈ نے کمیٹی میں ایسے افراد رکھے ہیں جو شاید کبھی بھی بورڈ کی پالیسیوں پر تنقید نہ کرسکیں۔

بورڈ میں شہرہ آفاق کرکٹر وسیم اکرم، سابق ٹیسٹ کرکٹر عمر گل، علی نقوی اور سابق خاتون کرکٹر عروج ممتاز شامل ہیں۔ حیران کن طور پر سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم کو کمیٹی کا چئیرمین مقرر کیا گیا ہے۔  

دھیمے مزاج کے کم گو اقبال قاسم پاکستان کے شریف النفس کرکٹر سمجھے جاتے ہیں۔

ماضی میں کئی مرتبہ چیف سیلیکٹر کے عہدے پر فائز رہنے والے بائیں ہاتھ کے سابق سپنر کی دوبارہ تقرری ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاکا کے نام سے مشہور اقبال قاسم نے راقم سے ایک انٹرویو میں موجودہ کرکٹ بورڈ کے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرنے کے فیصلے کو عقل سے بالاتر قرار دیا تھا۔

خود اقبال قاسم نیشنل بینک کے سپورٹس ڈویژن کے سربراہ ہیں اور وہ اپنی ساری کرکٹ کو ڈیپارٹمنٹ کی دین سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ایک مہنگے ترین کھیل میں اگر کوئی مالی سرپرستی نہ ہو تو مستقل کھیلنا ناممکن ہوتا ہے۔

50 ٹیسٹ میں 171 وکٹ لینے والے اقبال قاسم کی سربراہی میں کمیٹی پاکستان کرکٹ کی راہیں متعین کرے گی لیکن کمیٹی کے ممبران میں شامل لوگوں کی اہلیت پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔

عروج ممتاز خواتین کرکٹ کی نمائندگی کریں گی حالانکہ ان پر حال ہی میں ذاتی پسند ناپسند کے تحت ثنا میر کو ٹیم سے ڈراپ کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برس سے منظر عام سے غائب تھیں اور اب موجودہ بورڈ میں دوبارہ سامنے آئی ہیں۔

علی نقوی اور عمر گل بھی اتنا تجربہ نہیں رکھتے کہ وہ مستقبل کی راہیں متعین کرسکیں۔

واشنگ پاؤڈر اور ائیر کنڈیشنر کی تشہیر سے لے کر سٹار سپورٹس پر کمنٹری کرنے والے وسیم اکرم شاید اس وقت پاکستان کے سب سے مصروف ترین سابق کرکٹر ہیں جن کا ایک قدم آسٹریلیا اور دوسرا پاکستان میں رہتا ہے۔ ان کی شمولیت بھی شاید کمپنی کی مشہوری کے لیے ہے۔  

ہر ہانڈی میں نمک کی طرح موجود رہنے والے ذاکر خان بھی کمیٹی میں موجود ہیں، جو آج کل بورڈ کے کرتا دھرتا ہیں اور سنا ہے کہ ہر تقرری ان کے مشورے سے ہوتی ہے حالانکہ ان کا کرکٹ کا تجربہ اتنا ہی ہے جتنا آئرلینڈ کا ٹیسٹ کرکٹ کا۔ 

مناسب ہوتا اگر اس کمیٹی میں یونس خان اور عامر سہیل جیسے ماہرینِ کرکٹ کو جگہ دی جاتی جو اپنے روشن خیالات اور واضح حکمت عملی کے لیے مشہور ہیں، کرکٹ میں ان کا تجربہ پاکستان کرکٹ کو منتقل ہوسکتا تھا۔

کرکٹ کمیٹی کا تصور آئی سی سی کی کمیٹی سے لیا گیا ہے لیکن اس کمیٹی کے فیصلے آئی سی سی بلا چوں وچراں قبول کرتی ہے اور ان کو نافذ کرتی ہے۔ جب کہ پاکستان کرکٹ میں پاکستان کی سیاست کی طرح شخصیت پرستی کا رجحان ہے اور فیصلوں پر عملدرآمد چہرے دیکھ کر کیا جاتا ہے جیسے موجودہ وزیر اعظم کے ایک جنبش قلم سے آن واحد میں ڈومیسٹک کرکٹ کا حلیہ بدل دیا گیا یہ الگ بات ہے کہ اب اس فیصلے کو ان کے اور تمام فیصلوں کی طرح واپس لیا جارہا ہے۔

منکسرالزاج اقبال قاسم کہاں تک اپنی کمیٹی کے فیصلوں کو کرکٹ بورڈ کی پالیسی بنواسکتے ہیں یہ تو کچھ عرصہ بعد پتہ چلے گا لیکن نظریاتی طور پر کرکٹ بورڈ سے اختلاف کے باوجود کمیٹی میں کام کرنے کے فیصلے نے اقبال قاسم کی عزت و توقیر مزید بڑھا دی ہے کیونکہ ان کے قریب رہنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اقبال قاسم ایک انتہائی تحمل مزاج انسان ہیں اور کرکٹ کی ترقی کے لیے اپنے ادارے کے ذریعہ سے وہ کئی بڑے کرکٹر بنا کر پاکستان کرکٹ کو دے چکے ہیں۔ 

وسیم اکرم، وسیم خان اور ذاکر خان کی موجودگی میں اقبال قاسم کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنے وژن کو یہاں بھی استعمال کرسکیں لیکن ان کی موجودگی سے بہت سارے ایسے کھلاڑیوں کی امیدیں پھر سے جوان ہوگئی ہیں جو مصباح الحق اور ان کے پیش رو سیلیکٹرز کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بن کر ماضی کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔

اقبال قاسم کے لیے یہ سربراہی ایک امتحان بھی ہے اور ایک موقع بھی۔

کیا وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کرکٹ کو صحیح راہ پر متعین کرسکیں گے؟ اس کے لیے انھیں واضح موقف اپنانا ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ