ہندوؤں کے خلاف پی ٹی آئی رکن کے پوسٹر پر سندھ میں احتجاج

میاں محمد اکرم عثمان نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک پرنٹر کو آرڈر کیا تھا کشمیر کے حوالے سے کچھ بینر اور پوسٹر ان کے نام سے بنا کر لگا دیں۔ ’پرنٹر کے پاس کوئی نیا بندہ تھا جس نے مودی کی بجائے ہندو لکھ دیا۔‘

وجہ تنازع بنے والا پوسٹر(انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان تحریک انصاف لاہور کے ایک رہنما کی جانب سے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے لاہور میں لگائے جانے والے ایسے بینرز اور پوسٹرز پر سندھ کے ہندو سوشل میڈیا صارفین شدید احتجاج کر رہے ہیں جن میں لکھا گیا تھا کہ ’ہندو بات سے نہیں لات سے مانتا ہے۔‘

ملک بھر میں 5 فروری سے یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی لاہور کے جنرل سیکرٹری میاں محمد اکرم عثمان کے نام سے پوسٹر لگائے گئے جن میں ان کی اپنی تصویر کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان اور قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر اور پاکستان تحریک انصاف کا لوگو بھی استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھارت کے جھنڈے پر کراس کے نشان کے ساتھ ساتھ ایک متنازع عبارت بھی لکھی گئی کہ 'ہندو بات سے نہیں لات سے مانتا ہے'۔

اس نعرے کو لے کر سندھ اور دیگر صوبوں کے لوگ بھی سوشل میڈیا پر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر کے صارف کپل دیو نے پوسٹر پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ 'کبھی کبھی ہم اپنی حبل وطنی کا اظہار کرتے ہوئے یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد ہندو بھی رہتے ہیں۔ اسی طرح بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان بھی رہتے ہیں۔ عثمان صاحب ہندؤں کے خلاف نفرت سے بھرے اس پوسٹر پر کم سے کم میرے محبوب قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر تو استعمال نہ کرتے۔‘

پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کی مخصوص نششت پر ایم این اے بننے والے کھیئل داس کوہستانی نے اپنی فیس بُک پوسٹ میں لکھا: 'مودی ایک فاشسٹ سوچ ہے جس کے کچھ ہی پیروکار ہیں۔ اس پستی میں جانے سے پہلے یہ بھول جانا کہ اس ملک میں 50 لاکھ سے زائد محب وطن ہندو رہتے ہیں۔ ہمیں نشانہ بنانا کب بند کیا جائے گا؟ حکومت مذہبی رواداری کو کیوں نہیں لاگو کرتی؟'

ڈاکٹر پی کے سندر نے مذہب کے استعمال کرنے پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے، سندھی زبان میں اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا: ’عام عوام بھوک سے پریشان ہیں چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان۔ اور کرلو مذہب کا استعمال جو ایسی جعلی سیاسی مکاروں کا پُرانا ہتھیار ہے جو وہاں (بھارت میں) وحشی مودی استعمال کر رہا ہے اور یہاں اس جیسے اُلو۔‘

سوشل میڈیا کے کچھ صارفین ایسے پوسٹر لگانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا بھی مطالبہ کرہے ہیں۔

کاشف بجیر نامی صارف نے اپنی فیس بک پوسٹ میں مطالبہ کرتے ہوئے لکھا: ' جس کسی نے بھی ایسی گری ہوئی حرکت کی ہے ان کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کی جائے تاکہ مذہبی نفرتوں کے اسباب کو ختم کیا جاسکے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کی مخصوص نششتوں پر پاکستان تحریک انصاف کے پانچ غیر مسلم اراکین اسمبلی ہیں جن میں دو مسیحی اور تین ہندو ممبران ہیں۔

مخصوص نششت پر آنے والے پی ٹی آئی کے ایم این اے لال مالہی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میں ہماری پارٹی رہنما کی جانب سے پوسٹر پر ہندو مخالف نعرا لکھنے والے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے پر سخت ایکشن لیا جائے۔‘

دوسری جانب موردالزام ٹھہرائے جانے والے پی ٹی آئی لاہور کے رہنما میاں محمد اکرم عثمان کا کہنا ہے یہ ایک غلطی تھی جس پر وہ شرمندہ ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوے میاں محمد اکرم عثمان نے کہا: ’میں کشمیر کے حوالے سے جاری ریلی میں سٹیج پر تھا اور مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے۔ میں نے ایک پرنٹر کو آرڈر کیا تھا کشمیر کے حوالے سے کچھ بینر اور پوسٹر میرے نام سے بناکر سڑکوں اور شاہراہوں پر لگادیں۔ پرنٹر کے پاس کوئی نیا بندہ تھا اور مودی کی بجائے ہندو لکھ دیا۔ مجھے جیسے پتہ چلا میں نے کہا فوری طور پر ایسے پوسٹر ہٹادیے جائیں۔ اس پرنٹر کو سزا دلائیں گے۔‘

انھوں کا مزید کہنا تھا کہ ’میں فوری طور پر معافی مانگی۔ میرا ہرگز ایسا کوئی مقصد نہیں تھا۔ میں پاکستان میں رہنے والے ہندؤں کی عزت کرتا ہوں۔ پی ٹی آئی تو پہلے بھی شیعہ اور سنی والے معاملے کی شکار ہوچکی ہے۔ میں دوبارہ معافی مانگتا ہوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ