احسان اللہ احسان کی مبینہ آڈیو: حکومت خاموش کیوں؟

سوشل میڈیا پر ایک آڈیو گذشتہ روز سے گردش میں ہے جس میں ایک شخص خود کو احسان اللہ احسان بتا کر کہہ رہا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کی ’حراست‘ سے فرار ہو گیا ہے۔

آڈیو میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ وہ معاہدے کے نکات، پاکستان میں انہیں کہاں رکھا گیا تھا اور اس معاہدے میں کون موجود تھے اس پر وہ بہت جلد اس پر بات کریں گے۔ (اے ایف پی)

پاکستانی سوشل میڈیا میں جمعرات سے ایک آڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک شخص دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان ہے اور وہ پاکستانی اداروں کی ’حراست‘ سے ’فرار‘ ہو گئے ہیں، تاہم اس آڈیو کی ابھی تک آزاد ذرائع یا حکومت سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

اپنے آپ کو احسان اللہ احسان کہنے والے ایک شخص اپنے آڈیو میں کہتا ہے: ’میں نے پانچ فروری 2017 کو خود کو ایک معاہدے کے تحت پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کیا تھا اور تقریباً تین برس تک اپنی طرف سے اس معاہدے کی بھرپور پاسداری کی لیکن پاکستان کے اداروں نے معاہدے کے خلاف مجھے اپنے بچوں سمیت قید کیا تھا اور 11 جنوری 2020 کو ہم پاکستانی اداروں کے قید سے فرار ہو گئے ہیں۔‘

آڈیو میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ وہ معاہدے کے نکات، پاکستان میں انہیں کہاں رکھا گیا تھا اور اس معاہدے میں کون موجود تھے اس پر وہ بہت جلد بات کریں گے۔

تاہم اس اتنے بڑے الزام پر حکومت یا سکیورٹی اداروں کی جانب سے کوئی وضاحتی بیان تقریبا 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی سامنے نہیں آیا ہے۔

کیا آڈیو واقعی احسان اللہ احسان کی ہے؟

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو ایسے صحافیوں سے بات کی جن کی ماضی میں احسان اللہ احسان فون پر بات ہوتی رہی ہے تاکہ جان سکیں کہ آڈیو واقعی احسان اللہ احسان کی ہے۔

پشاور کے ایک صحافی رسول داوڑ جو ماضی میں دہشت گردی کے واقعات کو کور کرتے رہے اور احسان اللہ احسان کے ساتھ کئی مواقع ہر فون پر بات بھی کی ہے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آڈیو میں آواز احسان اللہ احسان کی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے تصدیق بھی کی ہے کہ یہ آڈیو ان کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یوٹیوب پر پڑے احسان اللہ احسان کے مختلف ٹی وی انٹرویوز یا دیگر ویڈیوز کے ساتھ اگر ان کا موازنہ بھی کیا جائے تو آسانی سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ آواز واقعی احسان اللہ احسان کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رفعت اللہ اورکزئی نے کئی سالوں سے دہشت گردی کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے درجنوں مرتبہ احسان اللہ احسان کے ساتھ ماضی میں فون پر بات کی ہے اور وہ اس سمجھتے ہیں کہ آڈیو میں یہ آواز احسان اللہ احسان ہی کی ہے لیکن اس حوالے سے پاکستانی ادارے مزید تبصرہ کر کے اس ‘معاملے کی وضاحت کر سکیں گے۔

جس اکاؤنٹ سے خود کو احسان اللہ احسان کہنے والے شخص نے آڈیو ریلیز کی ہے، جب اس سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے ’فرار‘ کے کسی قسم کے مزید شواہد دینے سے انکار کر دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی ویڈیو آپ ریلیز کر سکتے ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہو سکے تو انہوں نے جواب میں بتایا کہ وقت آنے پر وہ سب کچھ سامنے لائیں گے اور ابھی تک صرف آڈیو پر ہی گزارا کیا جائے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سارے معاملے پر پاک فوج کا موقف لینے کے لیے آئی ایس پی آر کو ای میل بھیج دی ہے لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ ان کے طرف سے اگر کوئی موقف سامنے آیا تو اسے بھی پیش کر دیا جائے گا۔

اسی طرح انڈپینڈنٹ اردو نے پاک فوج کے دو دیگر سینیئر اہلکاروں کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنے کی کوشش لیکن انہوں نے اس معاملے پر کسی قسم کی تبصرہ کرنے سے گریز کیا، اور نہ ہی اس آڈیو کی تصدیق یا تردید کی۔

طالبان ذرائع سے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے ایک نے یہ بتایا کہ چونکہ احسان اللہ احسان اب تنظیم کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ان کے بارے میں تنظیم کے پاس معلومات نہیں ہیں اور نہ وہ فرار ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔

احسان اللہ احسان کون ہیں؟

احسان اللہ احسان کا اصلی نام لیاقت علی ہے اور وہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان تھے۔ کئی برس تک ٹی ٹی پی سے وابستہ رہنے کے بعد ان کے اس تنظیم کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے اور وہ جماعت الاحرار کے نام سے الگ ہونے والے دھڑے کے ترجمان بن گئے۔

ماضی میں احسان اللہ احسان پاکستان میں مختلف دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکیں ہے۔ نوبل انعام یافتہ ملا یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری بھی احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی۔

ان کے جانب سے ماضی میں آرمی پبلک سکول حملے کے حملے کی مذمت بھی کی گئی تھی۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے ایک خبر کے مطابق اس وقت جب تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے جب آرمی پبلک سکول حملے کی ذمہ داری قبول کی تو جماعت الاحرار کے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس حملے کی مذمت کی تھی۔ اس مبینے احسان اللہ احسان اپنی ایک ٹوئنٹر اکاونٹ بھی بنا لیا ہے جس سے وہ تواتر کے ساتھ ٹوئٹس بھی کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ٹوئٹر پر احسان اللہ ٹرینڈ بھی کر رہے ہیں۔

2017 میں پاک فوج کے ترجمان کے جانب سے یہ بیان سامنے آ گیا تھا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو پاکستانی سکیورٹی اداروں کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ایوان بالا میں یہ کہا گیا تھا کہ احسان اللہ احسان کے خلاف ملٹری کورٹ میں کارروائی ہو گی۔

اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا تھا کہ احسان اللہ احسا ن پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان