پاک افغان غلام خان بارڈر پر کاروبار بند کیوں؟

گذشتہ ایک ہفتے سے شمالی وزیرستان میں پاکستان افغانستان سرحد سے آنے اور جانے والی سڑکیں ویران ہیں۔

وسطی ایشیا کی تیز سرد ہوائیں پاکستان افعانستان سرحد پار کرکے غلام خان کے راستے شمالی وزیرستان میں داخل ہو رہی ہیں لیکن دور دور تک سڑکیں ویران ہیں۔ ویرانی کا سبب گذشتہ ایک ہفتے سے افغان گاڑیوں کی آمد پر پابندی ہے۔ایک جگہ درجنوں افغان گاڑیاں کھڑی ہیں جو ایف بی آر کسٹمز احکامات کے بعد بارڈر پر پہنچنے کے بعد پھنس چکی ہیں۔

پاک افغان سرحد کلئیرنس ایسوسی ایشن کے صدر حیات ہمزونی  کے مطابق مارچ 2018 کو ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک گاڑیاں رجسٹریشن کے بعد ڈرائیور اور کلینر سمیت کسٹمز ادائیگی کرتے ہوئے بنوں جا سکتی ہیں جبکہ پاکستانی گاڑیاں افغان صوبہ خوست تک بلا روک ٹھوک سفر کر سکتی ہیں۔مگر اب یہ حکم آیا ہے کہ افغانستان سے گاڑیاں صرف زیرو پوائنٹ یعنی پاکستانی سرحد تک آ سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’اس پابندی کے بعد کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ گاڑیاں پھنس چکی ہیں اور کسی کو سمجھ نہیں آتا کہ اب کیا ہو گا۔‘

سرکاری ذرائع کے مطابق روزانہ پچاس سے ساٹھ ٹرک افغانستان سے پاکستان اور اتنے ہی ٹرک پاکستان سے افغانستان سرحد پار آتے جاتے تھے۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد علاقہ میں امن و روزگار کے  لیے یہ ایک انقلابی سرگرمی سمجھی جاتی تھی۔

پاک افغان ٹریڈ سبزی فروٹ منڈی ایسو سی ایشن کے صدر عبداللہ خان داوڑ نے کہا: ’غلام خان سے بنوں تک ہوٹل ویران ہیں، مستری بےکار بیٹھے ہیں،سبزیاں باسی ہو رہی ہیں،سمنٹ کا کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ایک طرف تو وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ملک کو پیسوں کی ضرورت ہے اور دوسری طرف حکومت نے کروڑوں روپے کی آمدن پر پابندی لگا دی ہے۔ پہلے دہشت گردی کا شکار ہوئے، پھر بے گھر ہوئے اب روزگار چھینا جا رہا ہے۔ شمالی وزیرستان کے ساتھ یہ ظلم کیوں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک اس بندش کے باعث دس کروڑ سے زائد کی رقم سرکاری خزانے میں جمع نہ ہو سکی جو شمالی وزیرستان کے جنگ زدہ ضلع کے لیے بہت بڑی رقم ہے۔

میرانشاہ میں واقع ضلع انتظامیہ کے مختلف دفاتر سے رابطہ کرنے پر اس بندش کی تصدیق ہوئی لیکن اس بندش کا کوئی تحریری اعلامیہ یا وجوہات جاننے کے سوالات پرانتظامیہ کے حکام یا تو خاموش رہے یا پھر یہ کہا کہ وہ صورت حال کو جاننے اور سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

غلام خان بنوں شاہراہ پر ہوٹل چلانے والے محب اللہ وزیر نے بتایا: ’کچھ روز سے گاہک صرف اکا دکا رہ گئے ہیں۔ افغان اور پاکستانی ڈرائیوروں کے مختلف ہوٹلوں، پٹرول پمپوں کے ساتھ کھاتے تھےاور یہ ہمارے مستقل گاہک تھے جس سے پورے علاقے کو کاروباری فائدہ ہورہا تھا۔ سبزیاں اور سیمنٹ جا رہا تھا جبکہ پھل اور خشک میوہ جات آ رہے تھے۔ اب ایک طرف مہنگائی اور دوسری طرف یہ عذاب نازل ہو گیا۔ میں نے ووٹ تحریک انصاف کو دیا۔ وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کرتا ہوں کہ ہماری روزی روٹی بحال کریں۔‘

پاک افغان سرحد زیرو پوائنٹ پر کوئلے سے بھری ایک افغان گاڑی ڈرائیور اور کلینر کے ساتھ فروری کے پہلے ہفتے سے انتظار کر رہی ہے کہ اسے داخلے کی اجازت ملے کیونکہ کوئلے کے حوالہ سے سرحد پر ایسا کوئی نظام موجود نہیں کہ جس سے افغانی گاڑی سے کوئلے نکال کر پاکستانی گاڑی پر منتقل کیا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان