شہریت کا قانون: ہندو بلوائیوں کے حملے میں نو ہلاک، مسجد نذر آتش

نئی دہلی میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج کے دوران مشتعل ہندو گروہوں کے کارکنوں نے کلہاڑیوں اور لوہے کی راڈز کے ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں میں ہلہ بول دیا۔

جھڑپوں کو روکنے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی کمک کشیدہ علاقوں میں بھیج دی گئی ہے۔ ( اے ایف پی)

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد نو ہو گئی ہے جبکہ انتہا پسند ہندو بلوائیوں نے دہلی کی ایک مسجد کو نذر آتش کرکے اس کے مینار پر ہنومان کی تصویر والے جھنڈے لہرا دیے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق مشتعل ہندو گروہوں کے کارکنوں نے منگل کو کلہاڑیوں اور لوہے کی راڈز کے ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں میں ہلہ بول دیا۔

رپورٹ کے مطابق ہندو بلوائیوں نے مسلمانوں پر پتھر بھی پھینکے۔ تشدد کے ان تازہ واقعات میں 100 سے زیادہ افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

منگل کو یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہو رہے تھے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شہر کے دوسرے حصے میں بھارت کے ساتھ تین ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر مذاکرات کر رہے تھے۔ بعدازاں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ تشدد کے ان واقعات کے بارے میں سن رہے ہیں تاہم انہوں نے وزیراعظم مودی سے اس حوالے سے بات نہیں کی۔   

اے پی کے مطابق بھارتی دارالحکومت کے مسلم اکثریتی علاقے ’بھائی جان پور‘ میں دھویں کے سیاہ بادل دیکھے گئے، جہاں مشتعل ہجوم نے سبزیوں کی دکانوں کو آگ لگا دی اور مسلمانوں کے ایک مقدس مزار اور مسجد کو بھی نذر آتش کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے پی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہندو گروہوں کے کارکن علاقے میں جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے گشت کرتے رہے۔ پولیس نے ہندو گروہوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعال کیا جبکہ مرکزی شاہراہ کو احتجاجاً بلاک کرنے والے مسلمان مظاہرین پر بھی آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے۔

منگل کو نئی دہلی کے دیگر علاقوں میں بھی مظاہرین نے دفعہ 144 کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پتھراؤ کیا اور کچھ دکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کردیا جبکہ کچھ گھروں پر سنگ باری کی گئی۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ صورت حال تاحال کشیدہ ہے تاہم یہ قابو سے باہر نہیں ہوئی۔ جھڑپوں کو روکنے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی کمک کشیدہ علاقوں میں بھیج دی گئی ہے۔

پولیس کے ترجمان انیل کمار نے پیر کو سات افراد کی موت کی تصدیق کی ہے جبکہ سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ہلاکتوں کی تعداد نو بتائی ہے۔

دوسری جانب این ڈی ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ پیر سے شروع ہونے والی جھڑپوں میں 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ ’دا وائر‘ کے مطابق منگل کی سہ پہر کو دہلی کے علاقے اشوک وہار میں ایک مسجد کو نذر آتش کیا گیا۔ جلتی ہوئی مسجد کے مینار پر ہجوم نے ہنومان کے پرچم لہرا دیے جو ’جے شری رام‘ اور ’ہندوؤں کا ہندوستان‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

مسجد کے احاطے کے اندر اور آس پاس کی دکانوں کو بھی لوٹ لیا گیا۔ مقامی لوگوں نے ’دی وائر‘ کو بتایا کہ اگرچہ جائے وقوع پر فائر فائٹرز کے کچھ اہلکار موجود تھے لیکن پولیس نظر نہیں آ رہی تھی۔

مقامی لوگوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے مسلم برادری کے افراد کو علاقے سے ہٹا دیا ہے۔

دہلی میں فسادات اور تشدد ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب حمکران ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے دہلی پولیس کو ’الٹی میٹم‘ دیا تھا کہ متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین سے جعفرآباد اور چاند باغ کو تین دن کے اندر خالی کرا لیا جائے ورنہ وہ خود سٹرکوں پر آ جائیں گے۔

رپورٹس کے مطابق بہت سے علاقوں میں پولیس پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے میں ہندوتوا کے حامی گروپوں کا ساتھ دے رہی ہے۔

منگل کو متعدد صحافیوں پر بھی حملہ کیا گیا۔ ہجوم نے صحافیوں کے فون چھین کر زبردستی ایسی ویڈیوز یا تصاویر کو ڈیلیٹ کر دیا جن میں آتش زنی اور توڑ پھوڑ کے ثبوت موجود تھے۔

پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی دہلی میں مسجد پر حملے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’ذلت آمیز فعل کی ایک اور تازہ مثال۔ کسی مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی! ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے بابری مسجد واقعے کی ایک یاد دہانی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی وحشی کارروائیوں کے خلاف بھارت کے اندر سیکولر قوتوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا