کیرالہ: بھارت میں سیاسی تشدد کا گڑھ

جریدے کارواں نے کیرالہ کے مختلف حلقوں کو قتل گاہ قرار دیا ہے، جہاں ہونے والی سیاسی جنگوں میں گذشتہ دو دہائیوں میں درجنوں افراد مارے جاچکے ہیں۔

پی جیا راجن   میڈیا کے سامنے اپنا کٹا ہوا انگوٹھا دکھاتے ہوئے۔ تصویر: اے ایف پی

پی جیا راجن نے اپنا دایاں ہاتھ آہستہ سے اٹھایا اور ایک خالی جگہ کی طرف اشارہ کیا، جہاں کٹا ہوا انگوٹھا دکھائی دے رہا تھا۔ ان کے دوسرے بازو  پر گہرے زخم کا نشان دکھائی دے رہا تھا، یہ زخم انہیں ماضی کی انتخابی مہم کے دوران لگے تھے۔

نرم خو کمیونسٹ رہنما پی جیا راجن  بھارتی ریاست کیرالہ کی علامت ہیں۔ یہ ریاست بھارت میں سیاسی تشدد کا گڑھ ہے، جہاں حریف جماعتوں کے درمیان تشدد معمول کی بات ہے۔

خبر رساں ادارے  اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 67 سالہ پی جیاراجن نے بتایا کہ 20 برس قبل انہیں ان کی بیوی اور خاندان کے سامنے قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بچ نکلے۔

پی جیاراجن کے مطابق انہوں نے اپنا انگوٹھا کھودیا جبکہ بائیں بازو پر زخم آیا، سب ٹھیک ہوگیا اور اب احساس بھی نہیں رہا۔

سیاسی حریف جیاراجن پر بھی ایسے ہی حملوں کا الزام لگاتے ہیں لیکن وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

کارواں کے نام سے شائع ہونے والے جریدے نے بھارتی انتخابات کے دوران کیرالہ کے مختلف حلقوں کو قتل گاہ اور پی جیا راجن کو متاثرہ شخص قرار دیا ہے۔ جریدے کے مطابق ان قتل گاہوں کی سیاسی جنگوں میں گذشتہ دو دہائیوں میں درجنوں افراد مارے جاچکے ہیں۔

جیاراجن ریاست کیرالہ کے شمال میں واقع حلقے واداکارا سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے امیدوار ہونے سے ریاست میں دوسرے مقامات پر جاری انتخابی مہم کے دوران ہونے والے تشدد پر بھی روشنی پڑی ہے۔

فروری میں عام انتخابات سے محض چھ ہفتے پہلے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے دو کارکن مارے گئے تھے جبکہ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی قیادت میں بائیں بازو کے حریف ڈیموکریٹک فرنٹ الائنس کے کارکنوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔

Insert

سیاسی تجزیہ کار اولیکھ این پی کے مطابق بائیں بازو کی جماعتوں کی راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کارکنوں کے ساتھ بھی لڑائی ہوئی۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھی ہندو قوم پرست آر ایس ایس کی رکن ہے۔

اولیکھ این پی کہتے ہیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے کیرالہ میں اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے لڑائی پھیل گئی۔

اولیکھ این پی نے ’بھارت میں خونی ترین انتقام کی سیاست‘ کے عنوان سے واداکارا کے قریب واقع ضلع کے بارے میں کتاب لکھی ہے، جن کے مطابق خونریزی کیرالہ کے نام پر بڑا دھبہ ہے۔

1947 میں آزادی کے بعد کانگریس کا بھارت میں سیاسی غلبہ ہے۔ اولیکھ کے مطابق کانگریس نے سب سے پہلے تشدد کا آغاز کیا اور اس نے دوسری احتجاجی تحاریک اور حریف سیاسی جماعتوں کے ساتھ وہی کیا جو برطانوی سامراجی حکومت نے آزادی سے پہلے ان کے ساتھ کیا۔ جواب میں کمیونسٹ ارکان مسلح جدوجہد پر اتر آئے اور اب یہ صورتحال حریف نظریوں کے درمیان سیاسی بالادستی کا مسئلہ بن چکی ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ دیہات کسی ایک جماعت کے وفادار بن چکے ہیں۔ ان دیہاتوں کے درمیان کشیدگی اور لڑائی بھڑک اٹھی ہے۔ دیہات کے مکین موت اور تباہی کے کبھی نہ تھمنے والے چکر میں ایک دوسرے کے حریفوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہرفریق اپنی فتح اور شکست کا حساب رکھتا ہے اور مقصد کے لیے جان دینے والے پارٹی کارکنوں کو یاد رکھا جاتا ہے۔

تھلاسری شہر سے ریاستی اسمبلی کے کمیونسٹ رکن این این شمسیر نے  اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے ضلع میں پارٹی کے 93 کارکن جان گنوا چکے ہیں۔

آر ایس ایس کی مقامی تنظیم نے بھی مرنے والے اپنے کارکنوں کی تفصیل آفس کی دیوار پر نمایاں کر رکھی ہے۔

تھلاسری میں ’پراوین کے کے‘ نام کے ایک ترکھان کئی برس سے آر ایس ایس کے سرگرم کارکن ہیں۔ انہیں ایسے زخم لگے جن سے ان کی زندگی تبدیل ہوگئی۔ وہ موٹرسائیکل پر جارہے تھے، جب کمیونسٹ گاؤں کے قریب ان پر حملہ کیا گیا۔

پراوین کے کے نے  اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے بچ نکلنے کی کوشش کی لیکن زمین پر گرگئے، آٹھ افراد نے ان پر چاقوؤں اور کلہاڑیوں کے ساتھ حملہ کیا۔ سب سے پہلے ان کے سر کو نشانہ بنایا گیا، جس سے ان کا ہیلمٹ ٹوٹ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹانگ کو بھی زخمی کیا گیا جس کے بعد وہ لنگڑا  کر چلنے پر مجبور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ بہت بے رحمانہ تھا، کوئی انھیں بچانے نہیں آیا۔ راہ چلتے کچھ لوگوں نے انھیں قریبی ہسپتال پہنچایا، جس کے بعد انہیں آٹھ ماہ بستر پر گزارنے پڑے۔

مقامی افراد نے پراوین کے کے کو زندہ شہیدوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ یہ فہرست ان لوگوں کی ہے جن کے جسم پر خراشوں اور زخموں کے نشانات ہیں یا شاید جسم کا کوئی حصہ آپریشن  کرکے الگ کردیا گیا ہے۔

بی این لیلہ کی عمر 19 برس تھی جب ان کے خاوند آر ایس ایس میں پہلے پہل شامل ہوئے اور 1969 میں پارٹی کارکنوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں مارے گئے۔

 

بی این لیلہ کے مطابق انہیں ان لوگوں پر دکھ ہوتا اور وہ بے بسی محسوس کرتی ہیں جو اس وقت متاثر ہو رہے ہیں۔

لیلہ کا کہنا ہے کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتیں یہ صورت حال کب تبدیل ہوگی؟

سینئر ترین رہنماؤں میں سے ایک سی چندر شیکھر ہیں، جو 1942 میں آر ایس ایس میں شامل ہوئے۔ وہ کئی الیکشن اور ختم نہ ہونے والی نظریاتی لڑائیاں دیکھ چکے ہیں۔

چندر شیکھر کے مطابق حملہ آور اب بھی زیادہ تر وہی ہتھیار استعمال کرتے ہیں، یعنی چاقو اور کلہاڑیاں۔

گذشتہ تین دہائیوں میں بم بھی استعمال ہونے لگے ہیں، چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ ’اس صورت حال کو تبدیل کرنے کا صرف یہ طریقہ ہے کہ پولیس اور انتظامیہ غیر جانبدار ہوجائیں۔‘
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین