افضل کوہستانی کون تھے؟

بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ آخر افضل کوہستانی کا کوہستان ویڈیو سکینڈل سے کیا تعلق ہے؟

فوٹو: ٹوئٹر

افضل کوہستانی کو گذشتہ شب نامعلوم افراد نے ایبٹ آباد کے ایک نہایت ہی مصروف مقام پر فائرنگ کرکے قتل کر دیا، وہی افضل کوہستانی جن کا نام سن کر ذہن میں فوراً کوہستان ویڈیو سکینڈل کا نام آتا ہے۔

ان کے قتل کی بازگشت کل رات سے ہی سنائی دے رہی ہے، سوشل میڈیا پر سیاستدان اور سماجی کارکن انہیں ایک ’بہادر‘ اور ’جری‘ انسان قرار دے کر ان کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔

بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی آیا کہ آخر افضل کوہستانی کون ہیں اور ان کا کوہستان ویڈیو سکینڈل سے کیا تعلق ہے؟

کوہستان ویڈیو سکینڈل 2012 میں اس وقت منظر عام پر آیا، جب صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان سے موبائل فون سے بنی ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں غالباً ایک شادی کی تقریب میں شامل تین لڑکے رقص کرتے جبکہ پانچ لڑکیاں گانا گاتی اور تالیاں بجاتی نظر آئیں۔

افضل کوہستانی قتل کے بارے میں مزید پڑھیے

کوہستان ویڈیو سکینڈل کے مدعی افضل کوہستانی کے قتل پر غم و غصہ

 

اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد مقامی جرگہ بیٹھا اور اسے ’غیرت کا مسئلہ‘ قرار دے کر ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کے قتل کا حکم سنایا۔

افضل کوہستانی ان ہی لڑکوں میں سے ایک کے بھائی تھے، جنھوں نے اس حوالے سے آواز اٹھائی اور مقدمہ درج کرواتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو مئی 2012 میں قتل کردیا گیا تھا، تاہم پولیس کا دعویٰ تھا کہ لڑکیاں زندہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسی سال سات جون کو اس کیس پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 17 جولائی کو ایک کمیشن تشکیل دے کر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

سماجی کارکن فرزانہ باری بھی اس فیکٹ فائنڈنگ مشن کا حصہ تھیں، جنہوں نے اُس وقت اس شبہہ کا اظہار کیا تھا کہ کمیشن کے سامنے جن نقاب پوش لڑکیوں کو پیش کیا گیا، وہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں نہیں تھیں۔

دوسری جانب افضل کوہستانی کے تین بھائی شاہ فیصل، شیر ولی اور رفیع الدین بھی جنوری 2013 میں مبینہ طور پر لڑکیوں کے قبیلے والوں کی جانب سے قتل کردیے گئے۔ ان کے قتل کے ایک مجرم کو عدالت نے سزائے موت جبکہ دیگر پانچ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

تاہم لڑکیوں کے قتل کا کیس اسی طرح چلتا رہا اور پھر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں جولائی 2018 میں سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان ویڈیو سکینڈل کا نیا مقدمہ درج کیا گیا۔

پولیس نے تفتیش شروع کی اور چار ملزمان کو گرفتار کیا، جنہوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے ویڈیو میں نظر آنے والی تین لڑکیوں کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا جبکہ ان کی لاشیں نالے میں بہا دی تھیں۔

ملزمان کی جانب سے اعتراف جرم کے بعد عدالت نے ازخود نوٹس نمٹاتے ہوئے کیس ٹرائل کی منتقلی کے احکامات جاری کر دیے۔

تاہم افضل کوہستانی کا موقف تھا کہ ملزمان جھوٹ بول رہے ہیں اور انھوں نے پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا تھا۔

اپنے اسی اٹل موقف کی بنا پر افضل کو بے شمار دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ہزارہ ڈویژن پولیس کو دی گئی اپنی درخواست اور سپریم کورٹ میں بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

رواں برس جنوری میں میڈیا سے گفتگو میں افضل کوہستانی نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ملزمان کو سزا ملتی مشکل نظر آرہی ہے۔

افضل نے کہا تھا کہ ان لوگوں کو سزا ملنی مشکل لگ رہی ہے، 2012 سے لے کر اب تک سارے اٹارنی جنرل ہمارے خلاف جا رہے تھے کہ ہم نے لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی ہے اور لڑکیان زندہ ہیں، لیکن اب سات سال بعد انہوں نے ہمارے موقف کو تسلیم کیا ہے کہ تین بچیاں 2012 میں قتل ہوگئی تھیں۔

سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہے، جس کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ افضل کوہستانی کے قتل سے محض ایک گھنٹہ قبل کی ہے، جس میں وہ نئے ڈی پی او سے اپیل کرتے ہوئے ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کی جانب سے تشدد کا الزام عائد کرتے نظر آئے۔

 سماجی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ ’افضل کوہستانی کو انصاف کے حصول کے سفر کے دوران قتل کیا گیا، یہ قتل ان کی آواز کو خاموش کرانے کی ایک کوشش ہے لیکن یہ جنگ جاری رہے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان