امریکہ: ڈیموکریٹس کی مضبوط ترین خاتون امیدوار الیکشن دوڑ سے باہر

الزبتھ وارین نے دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کی محنتی عوام کی لڑائی کا حصہ رہیں گی، جن کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔

25 فروری کو لی گئی اس تصویر میں سینیٹر الزبتھ وارین دسویں ڈیموکریٹک پرائمری ڈیبیٹ میں حصہ لینے سے قبل (اے ایف پی)

امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی واحد مقبول خاتون امیدوار سینیٹر الزبتھ وارین جمعرات کو صدارتی نامزدگی کی دوڑ سے باہر ہو گئیں جس کے بعد دو مرد امیدواروں، جو بائیڈن اور برنی سینڈرز، کے درمیان پرائمریز کا مقابلہ ہو گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سپر ٹیوزڈے کے موقعے پر پرائمریز میں مایوس کن کارکردگی دکھانے کے بعد میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ ترقی پسند قانون ساز خاتون نے ایک اعلان میں کہا : ’میں اپنی صدارت کی مہم سے دست بردار ہو رہی ہوں۔‘

امریکی نظام  میں الیکشن سے قبل موسم گرما میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کی بڑی کنوینشن ہوتی ہے، جس میں یہ تعین کیا جاتا ہے کہ صدراتی انتخابات لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ  کس کو دیا جائے گا۔ اس سے قبل  فروری یا مارچ میں ہونے والے سپر ٹیوزڈے کو زیادہ تر ریاستوں میں امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے جس میں کئی ریاستیں ووٹنگ کے ذریعے امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں۔

بدھ کو  دوڑ سے دست بردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کیمبرج میں اپنے گھر کے باہر جمع حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے الزبتھ کا کہنا تھا: ’میں ضمانت دیتی ہوں کہ میں ملک بھر میں محنتی عوام کی لڑائی کا حصہ رہوں گی جن کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔‘ 

وارین کا کہنا تھا کہ وہ 77 سالہ سابق نائب صدر جو بائیڈن یا 78 سالہ برنی سینڈرز میں سے کسی کی بھی حمایت کا اعلان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وارین نے ’ایم ایس این بی سی‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ جو بائیڈن کا احترام کرتی ہیں تاہم ان کے درمیان بہت سے اختلافات رہے ہیں جبکہ انہوں نے برنی کو ایک پرانا دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ان کے ساتھ طویل عرصے تک کام کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وارین کی دست براری سے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹس کے میدان میں صرف ایک خاتون بچ گئی ہیں۔ تاہم ہوائی سے تعلق رکھنے والی تلسی گبرڈ کبھی بھی پارٹی کے لیے ایک اہم امیدوار نہیں رہیں اور انہوں نے کبھی ایک فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے۔

وارین کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس ہے کہ نومبر میں ری پبلکنز کے امیدوار  صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیموکریٹس کے پاس کوئی مضبوط خاتون امیدوار نہیں۔

’صنفی امتیازی‘

دست برداری کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اس سب میں مشکل یہ ہے کہ نوجوان خواتین کو مزید چار سال انتظار کرنا پڑے گا۔‘

مینی سوٹا سے تعلق رکھنے والی سینیٹر ایمی کلوبوچر بھی رواں ہفتے اس دوڑ سے باہر ہو گئی تھیں جبکہ کیلیفورنیا کی کمیلا ہیرس اور نیو یارک کی کرسٹن گلبرانڈ پہلے ہی صدارتی نامزدگی سے دستبردار ہو چکی ہیں۔

وارین سے جب پوچھا گیا کہ کیا خاتون ہونے کی وجہ سے وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ بہت پیچیدہ  سوال ہے: ’اگر آپ کہیں ’ہاں، اس دوڑ میں صنفی امتیاز اہم عنصر تھا‘ تو لوگ کہیں گے ’شکایت کر رہی ہیں‘۔۔۔ اور اگر آپ  کہیں ’ایسا نہیں ہوا‘ تو کروڑوں خواتین سوچیں گی’ آپ کس سیارے پر رہ رہے ہیں؟‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی امریکی مصنفہ جیسیکا ولینٹی نے بھی وارین کی دست براری کو صنفی امتیاز کی مثال قرار دیا۔

جیسیکا نے ویب سائٹ میڈیئم پر ایک آرٹیکل میں لکھا: ’یہ مجھے ناامیدی کی طرف لے جانے کے لیے کافی ہے کہ وارین ہمارے پاس زندگی بھر کی ایسی امیدوار تھیں جن کے پاس توانائی تھی، وژن تھا اور وہ ملک کو خوف ناک دور سے نکالنے کے لیے قیادت کر سکتی تھیں مگر میڈیا اور ووٹرز نے  انہیں نظرانداز کر کے فنا کر دیا۔ ’مجھے یہ مت بتائیں کہ اس کے پیچھے صنفی امتیاز کا عنصر شامل نہیں تھا۔ میں بہت عرصے سے اس سے واقف ہوں۔‘

’ہم ایک بار پھر بڑی عمر کے سفید فام مردوں کے درمیان قیادت کی دوڑ دیکھنے جارہے ہیں۔ یہ وہ امیدوار ہیں جن میں بہت ساری قابلِ ستائش خصوصیات بھی ہیں تاہم وہ خواتین کے مسائل مثلاً تولیدی حقوق، زچگی کے دوران شرح اموات اور امریکی زندگی کے تقریباً ہر پہلو میں سرایت پذیر بدانتظامی کو سمجھ نہیں سکتے۔‘

وارین کے اعلان کے بعد جو بائیڈن اور برنی سینڈرز نے ان کی تعریف کی۔ بائیڈن نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’سینیٹر وارین نے متوسط طبقے کے خاندانوں کے لیے جارحانہ لڑائی لڑی ہے۔ واشنگٹن اور میساچوسٹس اور انتخابی مہم کے دوران ان کے کام نے لوگوں کی زندگی میں ایک حقیقی فرق ڈالا۔

’ہمیں اس (انتخابی) دوڑ میں ان کی حمایت کی ضرورت ہے اور ہمیں سینیٹ میں ان کے جاری کاموں کی بھی ضرورت ہے۔‘

سینڈرز نے کہا: ’وارین نے نظریات کی ایک غیر معمولی مہم چلائی۔ ان کا مطالبہ رہا ہے کہ دولت مند اپنا جائز حصہ دیں، واشنگٹن میں بدعنوانی کا خاتمہ ہو، سب کے لیے صحت کی ضمانت دی جائے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹیں، طلبہ کے قرضوں کے بحران سے نمٹنے اور خواتین کے حقوق کی بھرپور حفاظت کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین