کیا پیر کو وفاقی حکومت کے ’مفلوج‘ ہونے کا اندیشہ ہے؟

وفاقی سیکریٹریٹ کے تمام ملازمین اور افسروں نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر پیر سے مکمل قلم چھوڑ ہڑتال کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد وفاقی حکومت کے امور ٹھپ ہو سکتے ہیں۔

پیر کو مکمل ہڑتال کی صورت میں پورا پاکستان سیکریٹریٹ بند ہو گا اور چپڑاسیوں سے لے کر سیکریٹریز تک کوئی کام نہیں کرے گا: وزارت  داخلہ کا ایک اہلکار (اے ایف پی فائل فوٹو)

اسلام آباد میں واقع وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین نے اپنی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق حکومتی فیصلے پر عمل نہ ہونے کے خلاف پیر سے مکمل قلم چھوڑ ہڑتال کا اعلان کر دیا۔

وفاقی سیکریٹریٹ کے ہزاروں ملازمین نے گذشتہ مہینے سے احتجاجاً روزانہ دو گھنٹے علامتی طور پر کام بند رکھنے کے علاوہ کانسٹیٹیوشن ایونیو پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔

تاہم وفاقی حکومت سے مذاکرات اور یقین دہانی کے بعد علامتی قلم چھوڑ ہڑتال پانچ مارچ تک ملتوی کر دی گئی تھی۔

تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر سیکریٹریٹ ملازمین نے جمعرات سے علامتی ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور دو دن  (جمعرات اور جمعہ) کی علامتی ہڑتال کے بعد پیر سے لامتناہی مدت کے لیے مکمل قلم چھوڑ ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

صدر آل پاکستان سیکریٹریٹ ایمپلائز کوآرڈینیشن کونسل چوہدری محمد حسین طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیر سے لامتناہی ہڑتال روزانہ صبح نو سے شام پانچ بجے تک ہو گی۔ ’جب تک حکومت ہماری تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرتی سیکریٹریٹ میں کام بند رہے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے جو کسی صورت قبول نہیں۔

ہڑتال کون کر رہا ہے؟

تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال میں پاکستان سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے گریڈ ایک کے ملازمین سے گریڈ 22 تک کے تمام افسران حصہ لے رہے ہیں۔

چوہدری طاہر کے مطابق سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے وفاقی حکومت کے (گریڈ ایک سے 22 کے) ملازمین کی تعداد آٹھ سے 10 ہزار ہے اور ان سب کی تنخواہوں میں اضافہ لمبے عرصے سے تاخیر کا شکار ہے۔

وفاقی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیر کو مکمل ہڑتال کی صورت میں پورا پاکستان سیکریٹریٹ بند ہو گا اور چپڑاسیوں سے لے کر سیکریٹریز تک کوئی کام نہیں کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیکریٹریٹ میں کام نہ ہونے کا مطلب ہے کہ پوری وفاقی حکومت مفلوج ہو کر رہ جائے گی اور یہ بڑی عجیب و غریب اور مشکل صورت حال ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیروں، مشیروں اور سیکریٹریز کے دفاتر میں کام کرنے والے تمام ملازمین قلم چھوڑ ہڑتال میں حصہ لیں گے اور کام مکمل طور پر بند ہو جائے گا۔

چوہدری طاہر نے کہا کہ سیکریٹری لیول کے افسران ہڑتال نہ بھی کریں تو فرق نہیں پڑ گا کیونکہ ان کا عملہ قلم چھوڑ ہڑتال پر ہو گا۔

پاکستان سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے ایک اور ملازم نے دعویٰ کیا کہ اس ہڑتال میں ڈی ایم جی گروپ سب سے زیادہ فعال ہے۔ ’سیکریٹریز خود نچلے عملے کو ہڑتال پر اکسا رہے ہیں تاکہ حکومت پر تنخواہوں کے اضافے کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ مطالبات پورے ہونے کی صورت میں سیکریٹریز کی تنخواہوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہو گا لہٰذا وہ نچلے درجے کے ملازمین کو استعمال کر رہے ہیں۔

تنخواہوں میں اضافہ کیوں اور کتنا؟

اس سال جنوری میں پاکستان کی افسر شاہی کے اعلیٰ ترین فورم سیکریٹریز کمیٹی نے وفاقی سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں 120 فیصد اضافے جبکہ سیکریٹریز اور ایڈیشنل سیکریٹریز کو ماہانہ ایگزیکٹیو الاؤنس کی ادائیگی کی بھی سفارش کی تھی۔

کمیٹی کی سفارش کے مطابق تنخواہوں میں اضافے سے گریڈ ایک سے 22 تک کے ملازمین مستفید ہوں گے۔

سیکریٹریز کمیٹی کے منٹس میں سیکریٹریز اور ایڈیشنل سیکریٹریز کے ایگزیکٹیو الاؤنس کے لیے چار لاکھ روپے ماہانہ کی سفارش کی گئی۔ 

چوہدری طاہر نے دعویٰ کیا کہ یہ تنخواہوں میں اضافہ نہیں بلکہ اس سے وفاقی سیکریٹریٹ ملازمین کی تنخواہیں صوبوں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے برابر ہو جائیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین وفاقی سیکریٹریٹ ملازمین سے زیادہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔

وفاقی سیکریٹریٹ ملازمین کا یہ بھی گلہ ہے کہ ان کے اور صوبوں کے سیکریٹریٹ ملازمین کے سکیلز غیر متوازن ہیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے مثال دی کہ وفاقی حکومت کے لیے کام کرنے والا ہیڈ کلرک بی پی ایس 15 کا ملازم ہے جبکہ چاروں صوبوں میں وہی ہیڈ کلرک گریڈ 16 کا ملازم ہوتا ہے۔

وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کا کہنا تھا کہ ان کے برعکس وفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والے اور آزاد اداروں کے کئی ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر اور پی آئی اے وغیرہ کا ذکر کیا، جہاں ان کے مطابق ملازمین کی تنخواہوں میں کئی کئی گنا اضافہ ہوا۔

اضافہ کیوں نہیں ہو رہا؟

حکومتی ذرائع کے مطابق وفاقی سیکریٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے حکومت کو ہر سال کم از کم چار ارب روپے اضافی درکار ہوں گے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ فی الفور اس کا انتظام کرنا حکومت کے لیے مشکل ہو گا۔

وفاقی وزارت خزانہ کے ایک سینئیر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت ملک کی معاشی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں اور ایسے میں وفاقی حکومت کے لیے یہ ایک مشکل کام ہو گا۔تاہم انہوں نے کہا کہ سیکریٹریٹ ملازمین کا تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ جائز ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت سیکریٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو اگلے مالی سال کے بجٹ تک ٹالنا چاہ رہی ہے۔ ’ایسے اضافی انتظامی اخراجات کو بجٹ میں ڈال کر پورا کیا جا سکتا ہے۔‘

وفاقی سیکریٹریٹ کیا ہے؟

پاکستان کی وفاقی حکومت تقریباً 40 وزارتوں پر مشتمل ہے اور ہر وزارت میں کئی کئی ڈویژنز ہیں۔

تمام وفاقی وزیر و مشیر، سیکریٹریز اور ان کا عملہ اسلام آباد کے ہائی سیکورٹی زون کنسٹیٹیوشن ایونیو میں واقع وفاقی سیکریٹریٹ میں بیٹھتے اور وہاں سے کام کرتے ہیں۔

وفاقی سیکرٹریٹ میں کابینہ اراکین کے علاوہ حکومت پاکستان کی دوسری ایجنسیوں کے صدر دفاتر اور نشستیں بھی موجود ہیں۔

وفاقی سیکریٹیریٹ کو پاکستان کی وفاقی حکومت کا انتظامی مرکز کہا جا سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان