آزادی مارچ اور شٹر ڈاؤن ہڑتال: کس کو کس سے فائدہ ہو گا؟

ماہرین کے خیال میں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور تاجروں کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کے ایک ساتھ ہونے سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔

13 جولائی کو تاجروں کی کال پر ملک گیر ہڑتال کے دوران پشاور کا ایک شہری ایک بند مارکیٹ میں بیٹھا ہوا ہے (اےایف پی) 

حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے باعث پاکستان کی تاجر تنظیموں نے 29 اور30 اکتوبر کو ملک گیر سطح پر شٹر داؤن ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیک وقت تاجروں کی ہڑتال اور مولانا فصل الرحمان کی آزادی مارچ سے حکومت پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ 

وفاقی حکومت نے جون میں پیش کیے گئے مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں ٹیکس دہندگان اور ٹیکسوں کے گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں اضافے کے لیے بعض اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا جن کے خلاف کاروباری طبقے خصوصاً چھوٹے تاجروں کی طرف سے مزاحمت سامنے آئی تھی۔

اسی سال جولائی میں حکومت نے تاجروں کی نمائندہ تنظیموں سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ جو تاحال بے نتیجہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس دوران تاجروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے کئی چھوٹی بڑی ہڑتالیں بھی کیں ہیں۔ تاہم 29 اور 30 اکتوبر کو  تاجر تنظیموں کی ہڑتال اس لیے منفرد ہو گی کہ انہی دنوں میں جمعیت علما اسلام (ف) کا آزادی مارچ بھی شروع ہو چکا ہو گا۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت ہٹانے کی غرض سے 27 اکتوبرسے آزادی مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ جس میں جمعیت کے کارکن ملک بھر سے چھوٹے بڑے جلوسوں اور ریلیوں کی شکل میں اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ میں ان کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے پلان کے مطابق 27 اکتوبرکو ملک کے مختلف حصوں سے روانہ ہونے والے جلوس 31 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت میں داخل ہوں گے جہاں مظاہرین دھرنا بھی دے سکتے ہیں۔

تاجروں کی شٹر داؤن ہڑتال عین ان دنوں میں ہو گی جب ملک کے مختلف حصوں سے  روانہ ہونے والے جمعیت علما اسلام کے قافلے اسلام آباد کی طرف سفر کر رہے ہوں گے۔ یعنی کم از کم دو دن کے لیے تحریک انصاف حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ اور اسی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف تاجروں کا شٹر داؤن ایک ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہوں گے۔

یہاں کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا دو دن تک ایک ساتھ چلنے والے دو مختلف احتجاج ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث بن سکیں گے؟ کیا مولانا فضل الرحمان تاجروں کے شٹر داؤن ہڑتال سے فائدہ اٹھائیں گے یا تاجر برادری کو جمعیت علما اسلام (ف) کی آزادی مارچ سے کوئی خیر حاصل ہو گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاجر تنظیموں کے رہنما ؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کی شٹر داؤن ہڑتال ایک غیر سیاسی سرگرمی ہے جس کا مقصد ان کے پیشے سے متعلق مطالبات کا حصول ہے۔

مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہماری ہڑتال بہت ہی پر امن ہو گی اور اس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو بچانا ہے، یہ کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آج حکومت ان کے مطالبات مان لے تو وہ ہڑتال کی کال واپس لے لیں گے۔

تاہم انہوں نے اقرار کیا کہ حکومت کے ساتھ ان کے مذاکرات ابھی جاری ہیں اور مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں شٹر ڈاؤن نہیں ہو گا۔

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار محمد ضیاالدین کے خیال میں دونوں احتجاجوں کے ایک ساتھ ہونے سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’مولانا تاجروں کو فائدہ دیں گے اور تاجر برادری کے شٹر ڈاؤن سے مولانا کے مارچ کو فائدہ ملے گا، اور اس سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔‘

ضیاالدین کا کہنا تھا: ’تاجر اپنے مفادات کے لیے کسی سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ تو مولانا کیوں نہیں؟ اسی طرح بحیثیت سیاست دان مولانا کو بھی جہاں سے حمایت ملتی ہے وہ لیں گے۔‘

سینئیر صحافی احتشام الحق  نے کہا کہ یقیناً مولانا کی آزادی مارچ اور تاجروں کے شٹر ڈاؤن کے ایک ساتھ ہونے سے دونوں طرفین کو فائدہ ہو گا اور حکومت سخت قسم کے دباؤ میں آ جائے گی۔

انہوں نے اسے ’ناپاک اتحاد‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں طرفین کا مقصد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے۔

احتشام الحق نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے سے تاجر ٹیکس دینے سے بچ جائیں گے جبکہ مولانا فضل الرحمان کا حکومت کے خاتمے کا مطالبہ پورا ہو جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا: ’یہ صورت حال صرف حکومت کے لیے خطرناک اور تشویش ناک ہے، جبکہ مولانا اور تاجروں کے لیے یہ وِن وِن سیچویشن بنتی جا رہی ہے۔‘

ایک اور صحافی کا کہنا تھا کہ تاجروں کی ہڑتال سے مولانا فضل الرحمان کو کم از کم اخلاقی طور پر فائدہ ضرور ہو گا۔

انہوں نے کہا: ’تاجروں نے جونہی ہڑتال کا اعلان کیا تو اس سے مولانا فضل الرحمان کے اس بیانیے کو تقویت مل گئی کہ موجودہ حکومت ملکی معاملات چلانے کی اہل نہیں ہے۔‘

جمعیت علما اسلام کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل اسلم غوری کے مطابق: ’تاجروں کی دو روزہ ہڑتال سے ان کی تحریک کو ضرور فائدہ ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ حکومت کے اقدامات ان کی تحریک کو کامیابی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اس بیان کا ذکر کیا جس میں انہوں نے پاکستان کی عوام کو نوکریوں کی خاطرحکومت سے امید نہ رکھنے کا مشورہ دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست