انور چاچا، مراد چاچا

پچھلے 10 سال سے ایک کہانی اٹکی ہوئی تھی، سنانے کو تو بہت پہلے ہی سنائی جاسکتی تھی مگر شاید کہانی کو بھی انتظار تھا کہ اس کے کردار گزر جائیں تو کہانی سنائی جائے۔

محنت کش لوگوں سے زندگی کی کامیابی پوچھیں تو وہ آپ کو اپنی مال و دولت نہیں گنوا سکتے۔ ان کی سب سے بڑی اچیومنٹ یہی ہے کہ انہوں نے زندگی بھر حلال کمایا، حلال کھایا (اے ایف پی فائل فوٹو)

پچھلے 10 سال سے ایک کہانی اٹکی ہوئی تھی، سنانے کو تو بہت پہلے ہی سنائی جاسکتی تھی مگر شاید کہانی کو بھی انتظار تھا کہ اس کے کردار گزر جائیں تو کہانی کہی جائے۔ اب کچھ عرصے بعد کراچی آنا ہوا تو سوچا محنت کشوں کے اس شہر میں بسنے والے دو بابوں کی کہانی لکھی جائے۔

اولڈ سٹی کراچی کے علاقے میٹھادر کا نام تو سنا ہوگا؟ ارے وہی عبدالستار ایدھی کا علاقہ میٹھادر۔ اسی میٹھادر میں ’اچھی قبر‘ نامی چوک ہے۔ اچھی قبر تو ایک بزرگ کا آخری گھر ہے مگر اس اچھی قبر کے آس پاس کی گلیوں اور چبوتروں کو بہت سے مزدوروں نےاپنا ٹھیہ بنا رکھا ہے۔

وزیرستان، کوہستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر نجانے کہاں کہاں سے محنت کش کراچی کے ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور جیسے تیسےمحنت کرکے کراچی کی ورکنگ کلاس کی جیب سے چند نوٹ مزدوری کے عوض لیتے لیتے اپنی عمریں گزار دیتے ہیں۔ اچھی قبر سے مزدور بھاؤ تاؤ کر کے مل جاتے ہیں اور آگے جوڑیا بازار سے تعمیراتی سامان۔ کہانی اسی اچھی قبر کے ٹھیے پر بیٹھنے والے دو بابوں کی ہے۔

اٹھارہ سو پینسٹھ میں لکڑی، چونے، چٹانی پتھر سے تعمیر ہونے والے ہمارے آبائی گھر کو مرمت کی ضرورت تھی۔ گھر ڈیڑھ سو سال پرانا اور کام بھی ہلکا نہیں تھا۔ لکڑی سے بنی چھت پر نئے پھٹے لگنے تھے اور اس کے اوپر لگی سُرخ کھپریلوں کو ہٹا کر ان کی جگہ جستی چادر ٹھونکنی تھی۔ اس مرمت کے لیے کوئی ماہر اور ہمت والا مستری درکار تھا کیونکہ کام تین منزلہ اونچی عمارت کی چھت کا تھا اور عمارت کے عین نیچے بولٹن مارکیٹ کا چلتا کاروبار۔

اپنے گھر کی کئی فٹ اونچی چونے سے بنی دیواروں اور اس پر لکڑی کی بلیوں سے تنی چھت کو دیکھا تو سوچا کسی تگڑے مستری کو پکڑا جائے۔ لحیم شحیم، مناسب ڈیل ڈول والے، پُھرتیلے غرض ہر رنگ و نسل کے مستری بلائے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک مہینہ گزر گیا جو مستری آتا پہلے یہ اونچی چھت کو تکتا, نیچے بولٹن مارکیٹ، بمبئی بازار کے رش کو دیکھتا۔ کوئی تُکا مارتا اور مزدوری کی مد میں لاکھوں ڈیمانڈ رکھ دیتا۔ جسے کچھ نہ سوجھتا وہ کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کر نکل لیتا۔ گویا مستری نہ ہوئے لڑکے والے ہوگئے کہ آکر لڑکی کا جائزہ لیتے اور بعد میں استخارہ منع آیا کا کہہ کر چلے جاتے۔

اس سے پہلے کہ ہم ناامید ہوتے ایک پڑوسی نے بتایا کہ اچھی قبر پر ایک بابا بیٹھتے ہیں لکڑی کے کام میں طاق ہیں مگر عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی کام نہیں دیتا، ایک بار انہیں بھی دکھا لیں۔ خیر اگلے دن کرن ارجن کی جوڑی کی طرح دو بابے چھت کا معائنہ کرنے آگئے۔ انور چاچا اور مراد چاچا۔ ایک کو سنائی ٹھیک سے نہیں دیتا تھا وہ مراد چاچا تھے پیشے سے پلمبر۔ جنہیں سانس لینے اور دیکھنے میں دشواری تھی وہ بڑھئی تھے ان کا نام تھا انور چاچا۔

ستر، پچھتر سال سے کے دو بابے پانپتے کانپتے چھت پر چڑھے۔ عمارت کی بلندی، کام کی سختی اور شاید عمر کے اس حصے میں اپنی کم بختی تینوں کا جائزہ لیا اور دیکھتے ہی ہاں کردی۔ مزدوری مناسب مانگی اور کام فوری شروع کرنے کا اشارہ دیا۔

انور چاچا اور مراد چاچا کی جگہ مجھ سمیت کوئی بھی جوان ہوتا تو اول وہ اس کام کی حامی ایسے بلا تردد نہیں بھرتا، اور اگر ایسا کمر تیڑھی کردینے والا کام کرنا ہی ہوتا تو ہمیں کام سے پہلے ہی موت پڑ جاتی۔ ہم نے انور چاچا اور مراد چاچا کے سفید بال دیکھ کر کام دینے سے انکار کیا تو انہوں نے کام نہ ملنے اور دیہاڑی نہ لگنے کے دکھڑے سنائے۔ ہم نے کام کرائے بغیر پیسے دینا چاہے تو دونوں بابے برا مان گئے۔

پندرہ روز ان بابوں بلکہ یوں کہیے جوان کے بچوں کو صرف ہم گھر والوں نے نہیں پورے بمبئی بازار نے دیکھا۔ آتے جاتے راہ گیرمنہ اٹھائے ہماری لال جستی چھت کو دیکھتے رہتے ، ترچھی چھت پر رسی سے بندھے انور چاچا سپائڈر مین کی طرح اکڑوں بیٹھے ہوتے اور ہر تھوڑے وقفے کے بعد جیب سے کیل نکال کر ٹھونک دیتے۔

رسی کا اگلا سرا مراد چاچا نے اپنی کمر سے باندھا ہوتا جسے وہ گاہے بگاہے ڈھیلا کرتے پھر کس لیتے۔ نیچے چلتی ٹریفک دیکھ کر جہاں اچھے اچھوں کی سانس چڑھ جائے ایسی بلندی پریہ بابے عظمت انسانیت کا مینارہ بنے کھڑے تھے۔

ایبٹ آباد کے انور چاچا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مراد چاچا نے زندگی کے 50 سال میٹھادرکراچی میں چھوٹے بڑے گھروں کی مرمت کرتے گزار دیے۔ اپنے انتقال سے پہلے ابھی پچھلے ہی ہفتے نور چاچا کا ایبٹ آباد سے فون آیا کہنے لگے کہ بیٹا 80 سال کا بڈھا ہوگیا ہوں اب کام نہیں ہوتا مگر چوکیداری کرسکتا ہوں، کہیں کام ملے تو بتانا۔ مجھے نوکری ملے تو مراد کے لیے بھی کوئی ڈیوٹی ڈھونڈوں گا۔

سوچتی ہوں ساری زندگی کام کرتے اور لوگوں کے کام بناتے بناتے انور چاچا دنیا سے چلا گیا۔ ان کام والوں کو اللہ نے نجانے کس مٹی سے گوندھا ہوتا ہے کہ ہڈیاں سوکھ جاتی ہیں مگر یہ تھکتے نہیں۔ شاید اللہ کے حضور بھی انور چاچا کسی کام میں لگے ہوں گے۔

ایسے محنت کش لوگوں سے زندگی کی کامیابی پوچھیں تو وہ آپ کو اپنی مال و دولت نہیں گنواسکتے۔ ان کی سب سے بڑی اچیومنٹ یہی ہے کہ انہوں نے زندگی بھر حلال کمایا، حلال کھایا۔

شاید سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کرنسی نوٹوں پر ’حصول رزق حلال عبادت ہے‘ کا فقرہ ایسے ہی بابے اور ان کی ان تھک محنتیوں کو دیکھ کر لکھا ہوگا ورنہ ان نوٹوں سے کھیلنے والے کہاں اور کہاں ایسا حصول رزقِ حلال۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ