جنگ کی فضا میں انقلابی مزدور رہنما کی یاد

راولپنڈی پریس کلب میں مرحوم مزدور رہنما منظور حسین کے لیے عوامی ورکرز پارٹی کی جانب سے تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا

عوامی ورکرز پارٹی نے مزدور رہنما منظور الحسین کے اعزاز میں راولپنڈی پریس کلب میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیا۔ فوٹو۔ اے ڈبلیو پی
 

جنگ کی موجودہ فضاء میں سابق دور کے انقلابی اور ان کی جدوجہد اور بھی زیادہ یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں، عورتوں، اقلیتوں، محکوم قوموں اور مجومعی طور پر محنت کش عوام کو منظم ہو کر حقیقی عوامی ریاست کے قیام کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ بیسوی صدی کے بہترین انقلابی روایات کو ٹیکنالوجی کے موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ ملانا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار مختلف مقررین نے گذشتہ روز راولپنڈی پریس کلب میں مرحوم مزدور رہنما کامریڈ منظور حسین کے لیے عوامی ورکرز پارٹی کی جانب سے منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا گیا۔ تقریب میں جڑواں شہروں کے ترقی پسند سیاسی کارکنان، طلبا، مزدور رہنماوں اور عام شہریوں نے شرکت کی۔

کامریڈ منظور کے بھائی محمد ظہور خان نے کہا کہ منظور ایک انتہائی بے لوث، پرجوش اور محنتی انسان تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد میں صرف کی۔ یہاں تک کہ ملک میں بائیں بازو کی پسپائی کے بعد بھی منظور نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور محنت کشوں کے لئے اپنے بساط سے بڑھ کر جدوجہد جاری رکھی۔

عائمہ کھوسہ جنہوں نے کامریڈ منظور کے آخری سالوں میں ان کے ساتھ ملک میں بائیں بازو کی تحریک کو دوبارہ فروغ دینے کے جدوجہد کا حصہ رہیں۔ عائمہ نے کہا منظور صاحب کو نوجوانوں کی مزاحمتی تحریک میں شمولیت بہت حوصلہ دیتی تھی، وہ ہمیشہ نوجوانوں کے مسائل بڑے تحمل سے سنتے اور انتہائی دانشمند مشورے دیتے۔ عائمہ نے مذید کہا کہ منظور صاحب کی سیاست کا دائرہ کافی وسیع تھا، وہ محنت کشوں کے ساتھ ساتھ طلبہ، خواتین اور ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں کے خلاف بھی سرگرم رہے۔

ضیاء الحق کے آمریت میں کامریڈ منظور حسین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمے بنائے گئے، وہ سالوں مفرور رہے۔ قاضی مختار بھی ان کے ساتھ مفرور رہے۔ قاضی مختار نے کہا کہ کامریڈ منظور نے ایوب خان کی آمریت سے لے کر 'نئے پاکستان' تک محنت کشوں، نوجوانوں اور دیگر پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرداں رہے۔

70ء کی دہائی میں کامریڈ منظور نے طالب علم کی حیثیت سے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور مزدور رہنما کے طور پر کراچی کی داود فیکٹری کی ہڑتالوں میں پیش پیش رہے۔ اسی طرح ضیاالحق کی فوجی آمریت کے خلاف بھی ایم آر ڈی کا حصہ بن کر سرگرم عمل رہے۔ 90 کی دہائی میں عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ بنے لیکن اے این پی کے مسلم لیگ کے ساتھ تعلقات کی بنا پر کامریڈ منظور نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی۔

کامریڈ منظور نے اپنی جدوجہد کو اکیسویں میں بھی جاری رکھا۔ لاہور کے بائیں بازو کے اور ترقی پسند نوجوانوں کے ساتھ عوام دوست سیاست کو دوبارہ سے لوگوں میں عام کرنے کی کوشش شروع کی۔

منظور نے پاکستان میں ترقی پسند سیاست کے عروج و زوال دیکھتے رہے اور 90 کی دہائی میں بائیں بازو کی پسپائی کے باوجود استحصال اور استعماری طاقتوں کے خلاف ڈٹے رہے اور زندگی کے آخری ایام تک مظلوم گروہوں کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف رہے۔

عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صدر عاصم سجاد اختر نے  اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے اکثریت عوام بھوک، ننگ، جنگ و جدل کا شکار ہیں اور انہی عوام کو فروسودہ سیاسی و معاشی نظام سے نجات دلانے کے لیے منظور جیسے بے نام کارکنان نے انتھک جدوجہد کی۔ انہوں نے کہا کہ اس جدوجہد کو آج کے نوجوانوں کو آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ یہی نوجوان ہیں جو کہ نام نہاد ’قومی سلامتی‘ کی پالیسوں کی وجہ سے بنیادی معاشی و سیاسی آزادیوں سے محروم ہیں۔

تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ڈاکٹر عمار علی جان نے کہا کہ منظور صاحب مزاحمتی تحریک کے ایک سنہرے دور سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر عمار نے مذید کہا کہ عاصمہ، جہانگیر، فانوس گوجر، حمیدہ ریاض اور منظور صاحب جانے ملک پاکستان کی مزاحمتی تحریک کو شدید دھچکا لگا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان