خیبر پختونخوا اسمبلی میں مرمت کیا ضروری تھی؟

ڈپٹی سپیکر محمود خان کو شکایت ہے کہ ہر سال اسمبلی عمارت کا وائٹ واش کیا جاتا ہے اور مرمت کے نام پر بہت سارے غیرضروری ایسے کام کیے جاتے ہیں جن پر ایک بہت بڑی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔

صوبائی اسمبلی میں مرمت پر ایک کروڑ روپے خرچ کئے گئے جس کی ڈپٹی سپیکر کے مطابق ضرورت نہیں تھی (اسمبلی ویب سائٹ)

خیبر پختونخؤا اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے صوبے کے چیف سیکرٹری کو ایک خط لکھا ہے جس میں سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

26 فروری کے اس مراسلے میں جو انڈپینڈنٹ اردو نے دیکھا ہے چیف سیکرٹری کو بتایا گیا ہے کہ کس طرح ڈپٹی سپیکر کے منع کرنے کے باوجود سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو اور ایکس ای این پی بی ایم سی نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں مبینہ طور پر غیرضروری رنگ و روغن اور مرمت کی اور عوامی پیسے کا ضیاع کیا گیا۔

اس سرکاری مکتوب میں ڈپٹی سپیکر نے جو کہ اسمبلی کی عمارت اور لائبریری کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ہیں موقف اختیار کیا ہے کہ جب ان کے سامنے پی سی ون پیش کیا گیا تو انہوں نے اس سے عمارت کی وائٹ واش، فرش کی پالش اور دروازوں کے پینٹ کا کام خارج کر کے پی سی ون کا دوبارہ جائزہ لینے کو کہا کیونکہ ان کے مطابق بلڈنگ، دروازے اور فرش بہترین حالت میں تھے۔

تاہم اس خط کی رو سے ایکس ای این اور سیکرٹری سی این ڈبلیو نے ان احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پی سی ون کا جوں کا توں اطلاق کرتے ہوئے غیرضروری طور پر ایک خطیر رقم خرچ کر دی۔

سرکاری مکتوب میں مزید لکھاگیا ہے کہ ناں صرف چیئرمین کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ ایک کروڑ روپے سے زائد رقم کے اس ٹھیکے کا کوئی ٹینڈر بھی جاری نہیں کیا گیا حالانکہ ای بڈنگ کو متعارف کرنے کا سہرا پی ٹی آئی حکومت میں سی اینڈ ڈبلیو کے سر جاتا ہے۔ ساتھ ہی لکھا گیا ہے کہ یہ ٹینڈر ایک ایسے شخص کو دے دیا گیا جو پچھلے کئی برسوں سے صوبائی اسمبلی کے ٹھیکے لیتا آ رہا ہے۔ آخر میں لکھا گیا ہے کہ اس تمام صورت حال سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف اس ٹھیکے میں مبینہ اقربا پروری سے کام لیا گیا ہے بلکہ اس سے کرپشن کی بوں بھی آتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ان تمام الزامات کے حوالے سے سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو شہاب خٹک سے رابطہ کیا اور ان کو  پیغام بھی بھجوایا تاہم انہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کیا۔

ڈپٹی سپیکر محمود خان نے اس خط کی تصدیق کی اور کہا کہ ہر سال اسمبلی کے اندر وائٹ واش کی جاتی ہے اور مرمت کے نام پر بہت سارے غیرضروری ایسے کام کیے جاتے ہیں جن پر ایک بہت بڑی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا، ’ہر سال اتنی بڑی عمارت کی وائٹ واش کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم خود گھروں میں تو 3، 4 سال بعد رنگ وروغن کرتے ہیں لیکن یہاں بعض عناصر حکومت کے پیسے پر ہر سال شاہ خرچیاں کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔ اس رنگ و روغن کی ضرورت نہیں تھی لہذا میں نے منع کیا۔‘

محمود خان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے چیف سیکرٹری کو اس حوالے سے ایک انکوائری ٹیم تشکیل دینے اور رپورٹ کو 15 دن کے اندر ان کے دفتر بھیجنے کا کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مزید کچھ دن جواب کا انتظار کریں گے اور اس کے بعد یہ مراسلہ اینٹی کرپشن والوں کو ارسال کریں گے۔

کرپشن کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو خود پاکستان تحریک انصاف کے ایماندار اور محنتی سیاستدان شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی حکومت میں بعض سیاستدان خود پارٹی کی منشور کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے ارباب عامر ایوب آج ہی کھلے عام یہ گلہ کر رہے تھے کہ یہ پارٹی تبدیلی اور نیا پاکستان  کے نعرے پر وجود میں آئی تھی۔ تاہم یہاں بھی وہی بدعنوانیاں چل رہی ہیں جو پچھلی حکومتوں میں ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ایک فائل کے پیچھے بیسیوں دفعہ چکر لگوانا پڑتا ہے تب بھی ان کا کام نہیں ہوتا۔

’پارٹی کا جھنڈ ااور نام بدل گیا۔ چہرے وہی پرانے ہیں۔ یہ لوگ کام کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ اگر عمران خان تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس پارٹی کے اندر انقلاب لانا ہوگا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت