صنفی برابری کے اعتبار سے تاریخی اولمپکس ملتوی

منتظمین نے کافی تگ و دو اور قوانین میں ترامیم کے بعد اس مرتبہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ان کھیلوں میں خواتین کی نمائندگی تقریباً 49 فیصد رہے۔

امریکہ کی سپرنٹ سٹار ایلیسن فلیکس کا کہنا ہے کہ تاخیر سے ان کو فرق نہیں پڑے گا (اے ایف پی)

جاپان نے کافی سوچ بچار کے بعد بہرحال موسم گرما میں منعقد ہونے والے اولمپکس 2020 ملتوی کر دیئے ہیں۔ کھیلوں کے شائقین کے لیے یہ کرونا وائرس کا ایک اور ظلم ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ خواتین ان اولمپکس کا بڑی بےتابی سے انتظار کر رہی تھیں۔ اس کی وجہ اس مرتبہ کے اولمپکس کا اس کی تاریخ میں صنفی اعتبار سے سب سے متوازن ہونا تھا۔

اگرچہ اولمپکس محض ملتوی ہوئے ہیں لیکن کھلاڑیوں کی سال ہا سال کی تربیت اور منصوبہ بندی پر اس کا منفی اثر ضرور پڑے گا۔ منتظمین نے کافی تگ و دو اور قوانین میں ترامیم کے بعد اس مرتبہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ان کھیلوں میں خواتین کی نمائندگی تقریباً 49 فیصد رہے۔

ہر ٹیم میں کم از کم ایک مرد اور ایک خاتون کھلاڑی شامل ہونا لازم تھا۔ اس مرتبہ افتتاحی تقریب میں مرد اور خواتین کھلاڑیوں نے مل کر اپنے ملک کا قومی پرچم اٹھانا تھا۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں یہ امید کر رہی ہیں کہ منتظیمن، جنہیں اب اس دنیا کے کھیلوں کے سب سے بڑے تہوار کو دوبارہ سے آئندہ برس منعقد کرنے کی تیاریاں کرنی ہیں، صنفی برابری سے متعلق قوانین کو تبدیل نہیں کریں گے۔

ان قوانین میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے سربراہ تھامس بیچ نے کہا تھا کہ ان تبدیلیوں کے ذریعے وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ صنفی برابری اس مرتبہ اولمپکس میں ایک حقیقت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اولمپکس میں پہلی مرتبہ 22 خواتین نے 1900 کے پیرس میں منعقد کھیلوں میں شرکت کی تھی۔ اس کے بعد اولمپک کمیٹی کی کوششوں سے 2018 کے بیونس آئرس میں منعقد یوتھ اولمپک گیمز صنفی اعتبار سے برابری کی بنیاد پر منعقد کیے گئے تھے۔

لندن میں 2012 کے مقابلوں میں پہلی مرتبہ برونائی، سعودی عرب اور قطر کے دستوں میں خواتین شامل کی گئی تھیں۔

منتظمین امید کر رہے ہیں کہ ان کوششوں کے نتیجے میں پیرس میں 2024 کے اولمپک مقابلے مکمل طور پر صنفی طور پر برابر ہوں گے۔

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی ( آئی او سی) میں بھی 46 فیصد اراکین اب خواتین ہیں۔ یہ تاریخی اعتبار سے سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ تعداد 2013 کے اولمپک ایجنڈا 2020 کی وجہ سے آئی او سی کمیشنز میں خواتین کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔

خواتین کا انتظار شاید بڑھ گیا ہے لیکن ان کھیلوں کی تیاری کرنے والے اکثر اتھلیٹ اس تاخیر سے خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیل محفوظ حالات میں ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔

امریکہ کی سپرنٹ سٹار ایلسن فلیکس، جنہوں نے کسی بھی خاتون کے حصے میں آنے والے سب سے زیادہ یعنی چھ گولڈ میڈل ماضی میں حاصل کیے ہیں، کا کہنا تھا کہ یہ اعلان ان کی ان کھیلوں میں اپنی آخری شرکت میں تاخیر لائے گا لیکن اسے روک نہیں سکے گا۔

ٹائمز میگزین میں ایک مضمون میں انہوں نے لکھا: ’مجھے مستقبل کے بارے میں معلوم نہیں لیکن میرے اہداف تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ میں جیت کے پوڈیم پر 2021 میں کھڑی ہوں گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل