کرونا وائرس: موت میں کہانیاں ہیں

کرونا وائرس گھنگھرو پہنے چھن چھن کرتا جا رہا ہے۔ اس کی ہر چھن میں ایک موت کی خبر ہے اور ہر خبر سے کئی المیے جنم لے رہے ہیں۔

موت کی رفتار جب تیز ہونے لگتی ہے تب انسان کو جینے کی اُمنگ ملتی ہے(اے ایف پی)

کہانیاں المیوں سے جنم لیتی ہیں اور انسان جتنا زیادہ ڈر، خوف اور درد محسوس کرتا ہے اتنی ہی کہانی شیریں ہوتی جاتی ہے۔

ہم نے سن رکھا تھا کہ جنگ عظیم کروڑوں انسانوں کو کھا گئی تھی۔ وہ ہمارے لیے ایک خبر اور ایک بات تھی، سو ہم نے کروڑوں لاشیں تب تصور ہی نہ کی تھیں۔

وہ ’کروڑوں‘ ہمارے لیے ایک عدد تھا۔ ایسا عدد جو کہ ایک لاش کو کروڑ بار دہرانے جیسا تھا۔ ماضی کی وباؤں کو ہم نے طاعون و ملیریا جان کر پڑھ سن رکھا تھا لیکن ہم موت کی تعداد کو بس عدد ہی سمجھتے رہے۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دو ہزار لاشیں دیکھیں اور اس پر لکھے جانے والے شاہکار ناول دیکھیں۔ تھامس پنچن نے 'بلیڈنگ ایج' Bleeding Edge لکھی، کیون فلین نے ایک سو دو منٹ 102 minutes لکھی اور ڈان ڈیلیلو نے 'فالنگ مین' لکھ ڈالی۔

ایک سو دو منٹ نامی ناول میں وہ المیے دکھائے ہیں جو موت کے خوف سے جنم لے سکتے ہیں۔ 'فالنگ مین' ناول ایک کہانی ہے جو موت سے پیدا شدہ المیوں کا ممکنہ نتیجہ ہے اور 'بلیڈنگ ایج' ایک تلاش ہے جو موت کا منہ ڈھونڈنے سے متعلق ہے۔ یہ سب ناول کیا ہیں! یہ کہانیاں ہیں جو دراصل موت کی تال پر کیے گئے رقص ہیں۔

کہتے ہیں ہمارے ملک کی بنیادوں میں ہمارے بزرگوں کا خون موجود ہے۔ جلیانوالہ باغ میں انگریز فوج نے پرامن احتجاج کرنے والوں پر فائر کھولے تو گولیوں نے بلا امتیاز مذہب، رنگ اور نسل کے سب کو حیات سے رستگاری دے دی۔ تب المیے نے کہانی لکھوائی۔

تقسیم ہند کے بعد جب ریل گاڑیاں لاشوں کو ڈھو رہی تھیں تب بھی موت کے ناچ سے کہانی بنی۔ کرشن چندر نے ’ہم وحشی ہیں‘ لکھی اور منٹو نے 'سیاہ حاشیے' کھینچ لیے۔ 'لالہ گھسیٹا رام' اور 'ٹوبہ ٹیک سنگھ' اسی دور میں پیدا ہوئے۔ کہانی سنی اور سن سنا لی گئی۔ ویسے ہی جیسے ہر المیے پہ جنم لینے والی کہانیاں سفر کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک 13 سالہ لڑکے کی کہانی بنتی ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ چھٹی گزارنے ساحل پہ موجود ہوتا ہے اور سونامی کی لہریں اس کی زندگی بدل دیتی ہیں۔ جب سمندر کی لہریں اپنا حسن تیاگ کر وحشت کا منظر تراش لیتی ہیں تب ایک کہانی بنتی ہے جسے escaping the gaint wave کا نام دیا جاتا ہے۔

موت کی رفتار جب تیز ہونے لگتی ہے تب انسان کو جینے کی اُمنگ ملتی ہے۔ حیات کی قلت نے ہمیشہ ثبات سے محبت کو جنم دیا ہے۔ موت کے دوہڑے ماہیے امید کی تمام تر شمعیں جلا دیتے ہیں۔ پھر دلوں کو پیغامِ سجود یاد آتا ہے اور جبین خاکِ حرم سے آشنائی مانگتی ہے۔

کووڈ 19 نوول کرونا کیا کر رہا ہے؟ ہزاروں جانیں لے چکا ہے اور گھنگھرو پہنے چھن چھن کرتا جا رہا ہے۔ اس کی ہر چھن میں ایک موت کی خبر ہے اور ہر خبر سے کئی المیے جنم لے رہے ہیں۔ ہر المیے کی بہت ساری کہانیاں ہیں اور ہر کہانی میں ڈھیر سارے میں اور آپ ہیں۔

ایک درویش کی کہانی جسے تسبیح نے پناہ نہ دی اور ایک ولی کی کہانی جسے ولایت نے نہ بچایا۔ ایک پیر کی کہانی جسے مرید نے دور رہنے کا کہا اور ایک عامی کی کہانی جسے اس وبا نے وہ سجدہ عطا کیا جو تحت الثری تک کے ہر زرے کا جگر ٹھنڈا کر دے۔ وہ براہمن جو دوسرے براہمن کو نہ چھوئے اور وہ شودر جو اس حرکت پر مسکرا کر کہے کہ قدرت نے براہمن کو بھی شودر کا درد دکھا دیا۔

ان لوگوں کی داستانیں جو اپنی زندگیوں کو سکھی سمجھتے تھے اور ان کے تذکرے جنہیں گمان تھا کہ زندگی مذید مشکل نہیں ہو سکتی۔ ان کی کتھا جنہوں نے مشکل وقتوں میں ساتھ دینے کی قسموں کی لاج رکھی اور ان کے افسانے جو کمزور لمحوں میں پہچان لیے گئے۔۔

ہماری اپنی کہانی جنہوں نے کروڑوں لاشوں کو فقط پڑھ کر یاد کر لیا تھا اور وہی ہم کہ آج ہزاروں لاشوں کی حقیقت سمجھنے کے قابل ہیں۔ یہ ہزار سامنے ہیں تو زیادہ ہیں، وہ کروڑ اوجھل تھے تو کم تھے۔ جلیانوالہ باغ سامنے نہیں تھا۔ مین ہیٹن کا فالنگ مین سامنے ہے۔ جو سامنے ہے وہ زیادہ بےچین کرتا ہے۔

موت کی نِرت ایسی ہی ہوتی ہے۔ موت کی کمر ایسی ہی لچکتی ہے۔ اس کے ٹپے افسانے ہیں۔ موت اور المیے کہانی کہنے والوں کی عشرت کا سامان ہیں۔ کرونا کے دسترخوان پر کہانیوں کے انبار ہیں قلم کی نوک سے کہانیاں اٹھنے والی ہیں۔ جب سنا تھا کہ دنیا کا بہترین ادب غم کی پیداوار ہے تب بھی لگا تھا کہ قلم کی سیاہی کو سرخی کہا جانا چاہیے۔

قلم کی حرمت کا سوال نہ ہوتا تو گدھ کی تشبیہہ کیا خوب رہتی مگر یہ بھی سچ ہے کہ کہانیاں زندگی کے لیے اور اموات کہانیوں کے لیے بہت ضروری لگتی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ایام کی تلخی کہانیوں میں کتنی شیرینی بھرتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ