کرونا سے صحتیاب کراچی کی ایک مریضہ نے کتنی مشکلات اٹھائیں

ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے انہیں جو جدوجہد کرنی پڑی اس کے نتیجے میں ان کی والدہ اور 16 سالہ بھائی کو بھی کرونا وائرس کا مرض لاحق ہو گیا۔

(اے ایف پی)

کراچی سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ لڑکی جو خود کو کرونا (کورونا) وائرس کی سروائیور کہتی ہیں، نے اپنا اصل نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے اپنی کہانی شئیر کی ہے۔

عائشہ (فرضی نام) تقریباً دس دن تک ہسپتال میں داخل رہیں لیکن ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے انہیں جو جدوجہد کرنی پڑی اس کے نتیجے میں ان کی والدہ اور 16 سالہ بھائی کو بھی کرونا وائرس ہو گیا۔ عائشہ کے والد کو مجبوراً ان تینوں مریضوں کا علاج پرائیویٹ ہسپتال میں کروانا پڑا جس کے نتیجے میں انہوں نے لاکھوں روپے کا بل بھی بھرا ۔

نو مارچ سے یہ معاملہ شروع ہوا جب عائشہ کی طبعیت خراب ہونا شروع ہوئی۔ عائشہ کو بخار تھا، جسم میں درد، سوکھی کھانسی، پیٹ میں درد تھا اور الٹیاں ہورہی تھیں۔ طبعیت خراب ہونے کے باعث عائشہ نے کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں واقع سیفی ہسپتال میں اپنا چیک اپ کروایا۔ ڈاکڑوں نے موسمی بخار کی دوا دے کر عائشہ کو گھر بھیج دیا۔

ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد ڈاکڑ کی دوا سے عائشہ کی طبعیت بہتر نہیں ہوئی بلکہ اب دیگر علامات کے ساتھ ساتھ انہیں سانس لینے میں بھی دشواری محسوس ہونے لگی۔ یہ دیکھتے ہوئے ان کے والد نے کراچی کے نیشنل سٹیڈیم روڈ پر واقع آغا خان ہسپتال کی ایمرجنسی میں ان کا چیک اپ اور کرونا کا ٹیسٹ بھی کروایا۔ عائشہ کے والد کے مطابق اس ٹیسٹ کی فیس  تقریباً دس سے  11 ہزار تھی اور ایمرجنسی وارڈ کی فیس 50 ہزار تھی جو انہوں نے اسی دن ادا کی۔

اگلے دن دوپہر کے وقت عائشہ کے والد کے پاس ہسپتال سے کال آئی اور انہیں بتایا گیا کہ عائشہ کے ٹیسٹ میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اس لیے وہ فوری طور پر انہیں کسی ہسپتال لے جائیں۔ یہ جاننے کے بعد عائشہ کے والدین انہیں گھر کے قریب واقع ریمیڈیل ہسپتال لے گئے۔ ان کے والد کے مطابق ’ڈاکٹر نے اس کی طبعیت کا معائنہ کیا اور دوا کا نسخہ بھی لکھا لیکن جیسے ہی ہم نے ڈاکٹر کو بتایا کہ عائشہ کا کرونا وائرس پازیٹو ہے تو ڈاکٹر اپنی سیٹ سے اٹھ کے ہسپتال کے اندر گئے اور ایک سینئیر ڈاکٹر کے ساتھ واپس آئے جنہوں نے نسخہ پھاڑ کے پھنک دیا اور کہا کہ اپنی بیٹی کو فوراً یہاں سے لے جائیں اور گھر میں رکھیں۔‘

ساتھ شام سات بجے گھر پہنچنے کے بعد ان کے والد کے فون پر نامعلوم نمبروں سے متعدد کالز آنا شروع ہو گئیں۔ عائشہ کے والد کے مطابق انہیں تقریباً دس سے 15 کالیں موصول ہوئیں جن میں ڈی سی سینٹرل، سندھ ہیلتھ منسٹر کے نمائندے، آغا خان کے ڈاکٹر اور ان کے علاوہ کچھ افراد کی کالیں شامل ہیں۔ انہیں فوری پر عائشہ کو ہسپتال میں داخل کرنے کی ہدایت کی گئی۔

عائشہ نے بتایا کہ ’اس وقت گھر میں بہت افراتفری کا ماحول تھا۔ نامعلوم نمبروں سے پاپا کے فون پر مسلسل کالز آئے جا رہی تھیں کہ مجھے ہسپتال میں داخل کروایا جائے۔ پاپا پریشان تھے کہ مجھے کہاں لے کر جائیں کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ پرائیویٹ ہسپتال میں علاج مہنگا ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں صحیح انتظامات نہیں ہوتے۔ اس لیے ہم سب سے پہلے ڈی ایم سی ہسپتال گئے۔‘

عائشہ اور ان کے والدین 14 مارچ کی شام کراچی کے علاقے گلزارِ ہجری میں واقع ڈی ایم سی ہسپتال کی جانب روانہ ہوئے جہاں پہنچنے کے بعد ان کے والد نے آئیسولیشن وارڈ کا جائزہ لیا تو وہ انتظامات سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ان کے والد کے مطابق ’ڈی ایم سی میں کافی مچھلی بازار جیسا ماحول تھا۔‘ اس لیے انہوں نے آغا خان ہسپتال جانے کا فیصلہ کر لیا۔

عائشہ کے والد کے مطابق ’میں ڈی ایم سی سے آغا خان کی جانب جانے لگا تو میرے فون پر سندھ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کال آئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں بیٹی کو آغا خان لے کر جا رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ آپ جلدی سے آجائیں ہماری ٹیم وہاں آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ مجھے ہسپتال پہنچنے میں تقریباً 30 منٹ لگے تو اس دوران مجھے ان ہی جانب سے دو تین اور کالیں آ گئیں۔ مجھے لگا کہ جیسے ہی میں بیٹی کو ہسپتال کے کر پہنچوں گا مجھے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن جب ہم آغا خان ہسپتال پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ یہاں آئیسولیشن وارڈ میں کوئی بیڈ خالی نہیں ہے اور وہ عائشہ کو یہاں داخل نہیں کر سکتے۔‘

اس دوران عائشہ کے والد سندھ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ اور آغاخان ہسپتال کی انتظامیہ سے بات کرکے انہیں داخل کروانے کی کوشش کررہے تھے، جب کہ عائشہ اپنی والدہ کے ساتھ آغا خان ہسپتال کی پارکنگ لاٹ میں انتظار کر رہی تھیں۔

عائشہ کے والد کے مطابق ’ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ آپ پرائیویٹ روم کے لیے فوری طور پر آٹھ لاکھ روپے جمع کروا دیں۔ میں نے کہا کہ میرے پاس آٹھ لاکھ نہیں ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ چار لاکھ ابھی جمع کروا کے باقی رقم بعد میں جمع کروا دیں۔ میری بیوی اور بیٹی چھ گھنٹے سے پارکنگ لاٹ میں انتظار کر رہے تھے۔ نہ میرے پاس اتنے پیسے تھے اور نہ ہی مجھے یقین آ رہا تھا کہ ہمارے ساتھ رات کے دو بجے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس لیے میں بیٹی کو لے کر گھر آ گیا صرف اِس ارادے سے کے اگلی صبح عائشہ کو کسی اور جگہ آئیسولیشن میں داخل کروا دیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مگر جیسے ہی ہم گھر پہنچے تو اس کے آدھے گھنٹے بعد تقریباً رات کے تین بجے مجھے پھر سے کالیں آنا شروع ہو گئیں اور بتایا گیا کہ ہم آپ کی بلڈنگ کے نیچے کھڑے ہیں آپ فوری طور پر اپنی بیٹی کو لے کر آجائیں، نہیں تو ہم سب کے لیے بہت مسئلہ ہو جائے گا کیوں کہ اب یہ معاملہ ریکارڈ پر ا چکا ہے۔ ہم پر کافی پریشر ہے۔ ‘

عائشہ کے مطابق وہ پہلے سے ہی کافی کمزوری محسوس کر رہی تھیں تو ان کے والد نے درخواست کی کہ انہیں صبح تک کا وقت دے دیا جائے لیکن ان کی بلڈنگ کے نیچے اسسٹنٹ کمشنر کراچی، ڈی سی سینٹرل اور سندھ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے میڈیکل افسران موجود تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے ان کے والد کو یقین دہانی کروائی کہ آپ کی بیٹی کو آغاخان کے آئیسولیشن وآرڈ میں ہی رکھا جائے گا آپ بس ابھی انہیں ہسپتال میں داخل کروا دیں۔ اس طرح تقریباً صبح کے پانچ بجے عائشہ کے والد نے انہیں آئیسولیشن وارڈ میں داخل کروایا، جہاں وہ اگلے دس دنوں تک ذیرعلاج رہیں۔ 

اگلے روز عائشہ کی فیملی میں تمام لوگوں کے اپنا کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا جس کے بعد ان کی والدہ اور 16 سالہ بھائی کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ عائشہ کے والد چاہتے تھے کہ فیملی کے تمام افراد ایک ہی ہسپتال میں رہیں تو انہوں نے مجبوراً اپنی بیوی اور بیٹے کا داخلہ بھی اس ہی ہسپتال میں کروایا۔

عائشہ کے مطابق ’پاپا کو ہم سب کے ٹیسٹس اور مکمل علاج کروانے میں تقریباً پانچ سے چھ لاکھ روپے کا خرچہ کرنا پڑا، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے اتنی جلدی کیسے اس رقم کا انتظام کیا لیکن میں یہ ضرور جانتی تھی کہ پاپا ہمارے علاج میں کبھی کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ بس میری دعا ہے کہ کسی کو بھی کرونا نہ ہو اور کم از کم اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان