’کروڑوں میں ایک شخص‘ جس کا دل بائیں نہیں دائیں جانب ہے

اسلام یار کو وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب انہیں پہلی بار پتہ چلا کہ ان کا دل بائیں کی بجائے دائیں طرف ہے۔

اسلام یار کا تعلق افغانستان سے ہے لیکن وہ بچپن سے ہی لنڈی کوتل میں آباد ہیں جہاں وہ گذشتہ 25 سال سے گوشت کی دکان پر کام کر رہے ہیں۔

اسلام یار کو وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب انہیں پہلی بار پتہ چلا کہ ان کا دل بائیں کی بجائے دائیں طرف ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’1992 میں جب میری عمر 13 سال تھی اور مجھے اپینڈکس کا درد ہوا تو ڈاکٹر کے پاس گیا۔ میں نے جب ایکسرے اور ٹیسٹ کروائے تو ڈاکٹر نے بتایا کہ میرا دل دائیں طرف ہے۔‘

ڈاکٹر احسان آفریدی لنڈی کوتل ڈسٹرکٹ ہسپتال میں میڈیکل افسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض  بچے جب ماں کے پیٹ میں نشوونما پاتے ہیں تو اس دوران کچھ اعضا دائیں ہوتے ہیں اور کچھ بائیں طرف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات یہی اعضا اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

’دائیں والے اعضا بائیں طرف چلے جاتے ہیں اور بائیں والے دائیں طرف چلے جاتے ہیں۔ یہ پیدائشی عمل ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ایک یہ ہے کہ صرف دل دائیں طرف جگہ تبدیل کرتا ہے جبکہ دوسری قسم میں دائیں طرف کے تمام اعضا بائیں طرف تبدیل ہوتے ہیں جبکہ بائیں طرف کے اعضا دائیں طرف ہوتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر احسان کہتے ہیں کہ اس طرح کے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کروڑوں میں سے ایک ہی ایسا انسان ہوتا ہے اور اسلام یار ان میں سے ایک ہیں۔

اسلام یار گوشت کی مختلف اقسام پکانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کے اخلاق کی وجہ سے لوگ ان کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے دیگر بہن بھائیوں سے مختلف اس لیے ہو سکتے ہیں کہ ان کا دل دائیں طرف ہے اور وہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ تمام لوگ دوسروں کی عزت و احترام کے لیے ہاتھ بائیں طرف سینے پر رکھتے ہیں جبکہ میرا ہاتھ خود بخود پہلے سے ہی دائیں طرف جاتا تھا۔

’لوگوں سے گلے ملتا ہوں تو بھی میرا دل ان کے دل کے ساتھ ملتا ہے۔ اس لیے میں دوسروں سے مختلف ہوں۔‘

اسلام یار دیگر لوگوں کی طرح بالکل نارمل زندگی گزار رہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کا دل دیگر لوگوں سے نرم ہے اور اس میں رحم اور ترس دوسروں سے زیادہ ہے۔

ان کے مطابق: ’میں دوسروں سے اپنے آپ کو صرف اس لیے مختلف سمجھتا ہوں کہ میں اپنے یا کسی دوسرے کے غم پر بہت زیادہ اداس ہوتا ہوں اور رونا آتا ہے۔ خوشی میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا اور روتا ہوں چاہے وہ اپنی خوشی ہو یا دوسروں کی۔‘

اسلام یار کے سات بچے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس خوف کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جا سکتے کہ کہیں ان کے دل بھی ان کے والد کی طرح دائیں طرف نہ ہوں اور انہیں کوئی تکلیف، ڈر یا خوف محسوس نہ ہو۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا