’ہمیں 3G انٹرنیٹ دے دیں، حقوق ہم خود حاصل کرلیں گے‘

اس وقت صرف قبائلی وہ واحد بدنصیب قوم ہے جو ہر قسم کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے، سابقہ فاٹا کے نوجوانوں کا شکوہ

قبائلی نوجوان کبھی سوشل میڈیا پر تو کبھی ارباب اختیار کے دفاتر میں اپنے مسائل پر بات کرتے نظرآتے ہیں اور جب یہ نوجوان مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر پریس کلب، گورنر ہاؤس یا پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دے دیتے ہیں۔فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو

سابقہ فاٹا کے نوجوان 2016 سے یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ انہیں بھی باقی پاکستان کی طرح  3G انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے، تاکہ وہ بھی ترقی و شعور میں اپنے ہم  وطنوں کے برابر آ جائیں۔

ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ صرف ایک ای میل کے لیے انھیں پشاور اور دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں رہائش پذیر قبائلی نوجوان کبھی سوشل میڈیا پر تو کبھی ارباب اختیار کے دفاتر میں اپنے مسائل پر بات کرتے نظر آتے ہیں اور جب یہ نوجوان مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر پریس کلب، گورنر ہاؤس یا پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دے دیتے ہیں۔

خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے یوتھ فورم کے  صدر عامر آفریدی، جو  3G انٹرنیٹ سہولت کا مطالبہ کرنے میں سب سے زیادہ متحرک رہے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے ضلع خیبر میں 3G سروس ٹھیک ٹھاک کام کرتی تھی، یہاں تک کہ وہ بیرون ملک مقیم اپنے بھائی کے ساتھ طویل ویڈیو کالز بھی کرتے تھے، لیکن پھر اچانک یہ سہولت منقطع ہو گئی، جس  پر کوئی بھی موبائل فون کمپنی کسی قسم کا ٹھوس جواب دینے سے قاصر نظر آرہی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب مختلف موبائل کمپنیوں سے یہ پوچھا کہ کیا وہ اس وقت ضم شدہ اضلاع کے کسی علاقے میں 3G کی سہولت دے رہی ہیں؟ تو سب نے نفی میں جواب دیا، سوائے زونگ کے، جس نے صرف خیبر ایجنسی میں یہ سروس دینے کی تصدیق کی۔

اس حوالے سے عامر آفریدی کا کہنا ہے کہ ’زونگ کے اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ  پشاور کی حدود ختم ہوتے ہی موبائل ڈیٹا کی سہولت بھی منقطع ہو جاتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہاں البتہ صرف لنڈی کوتل بازار میں انٹرنیٹ سہولت دستیاب ہے، لیکن وہ پی ٹی سی ایل کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور پی ٹی سی ایل  صرف آرمی کنٹونمنٹس کے علاقے میں ہے، عام لوگ اس سے محروم ہیں۔‘

عامر آفریدی کے مطابق آج کے دور میں ان جدید ضروریات سے محرومی، قبائل کو اندھیروں میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی ہمارا خیر خواہ ہے تو پہلے ہمیں 3G سہولت دیں، باقی کے حقوق ہم خود حاصل کر لیں گے۔ اس وقت صرف قبائلی وہ واحد بدنصیب قوم ہے جو ہر قسم کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔ ہم جتنے محب و طن ہیں، اتنے ہی خوار ہو رہے ہیں۔‘

رواں ماہ 9 مارچ کو خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے  شمالی وزیرستان کے دورے کے دوران میران شاہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انٹرنیٹ، 3G اور 4G سروس کی بحالی کا اعلان کیا تھا، جس پر حاضرین کی جانب سے کافی داد دی گئی، لیکن تاحال 3G یا 4G سروس کے بحال ہونے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔

  شمالی وزیرستان ہی کے رہائشی خان بہادر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ سب انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے حربے ہیں، جس پر انہیں ٹرخایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’ہمارے علاقوں میں  موبائل کے سگنل ہی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں تو 3G یا 4G کی کیا  بات کریں۔ ہاں لیکن یہ سچ ہے کہ پی ٹی سی ایل کی  لائنیں بچھانے پر کام شروع ہو گیا ہے۔‘

پاکستان میں 3G اور 4G سہولت میسر ہو جانے کے بعد ملک کے دور افتادہ علاقوں میں ایک عام آدمی کی زندگی کافی بدل گئی ہے۔

معلومات اور ضروری دستاویزات سیکنڈوں میں بغیر کسی تکلیف کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائی جاتی ہیں، لوگ اپنے پیاروں سے ویڈیو پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں، جس سے ان کو ذہنی آسودگی ملتی ہے۔ نت نئی معلومات ملنے سے لوگوں میں خود اعتمادی اور شعور آگیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ تفریح بھی ایک لازمی عنصر ہے، جس سے آج کا ہر نوجوان لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان