میں ماں نہیں ڈاکٹر سپاہی ہوں

ایک ڈاکٹر کی کہانی جو ماں بھی ہیں مگر کرونا کے بحران کی وجہ سے کئی دن سے گھر نہیں جا سکیں۔

(اے ایف پی)

میں پارٹ ٹو ایف سی پی ایس کی طالبہ ہوں۔ بطور ٹرینی ڈاکٹر آج کل روٹیشن پر میری ڈیوٹی آئی سی یو میں لگتی ہے۔

کرونا (کورونا) سے مجھے بھی اسی طرح ڈر لگتا ہے جیسے عام لڑکیوں کو لیکن ایک فرق ہے کہ میری ہم عمر ساری لڑکیاں گھروں میں بیٹھ گئی ہیں اور شاید اب وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت بھی دے رہی ہوں گی لیکن میرے ساتھ اور مجھ جیسی باقی لیڈی ڈاکٹروں کے ساتھ الٹا ہوا ہے۔

دو رات قبل آئی سی یو میں میں ایک نرسنگ اسٹنٹ اور ایک جوان عورت کی تیز بخار اور سانس کی تکلیف میں وینٹی لیٹر پر ہونے کے باوجود موت ہو گئی تو میں خوب ہی روئی۔ خوب خوب روئی جیسے میں خود مر گئی ہوں اور اپنی موت پر خود ہی رو رہی ہوں۔

میں ان دونوں تین دفعہ رات کی ڈیوٹی کر چکی ہوں اور سب کہتے ہیں کہ ان کو کرونا انفیکشن ہونے کا شک تھا۔ اگر یہی سچ ہے تو میں کرونا کا پکا انفیکشن لے چکی ہوں۔ ٹیسٹ کروانے کا کوئی بندوبست نہیں ۔ بس ڈر کے مارے گھر نہیں جا رہی کہ گھر پہنچنے پر جب میرا دو سال کا اکلوتا بیٹا بھاگ کے مجھ سے لپٹے گا تو کیا کروں گی۔ تین دن سے ہسپتال میں ہوں۔ میاں سے کپڑے منگوا لیے ہیں۔ وہ بھی دور سے ہی لیے تاکہ میاں اور بیٹا محفوظ رہیں۔

کبھی خیال آتا ہے کہ کیوں بنی ڈاکٹر۔ کتنے مزے میں ہیں وہ لڑکیاں جو بی اے کر کے شادی کرتی ہیں اور میاں کی خدمت کر کے خوش رہتی ہیں۔ خوب فیشن کرتی ہیں، گھومتی پھرتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی توجہ سے پالتی ہیں۔

دوسری طرف مجھ جیسی لیڈی ڈاکٹر ہیں جن سے نہ گھر والے راضی ہوتے ہیں نہ لوگ وہ عزت دیتے ہیں جس کے خواب ہم سب نے ڈاکٹر بننے سے پہلے دیکھے تھے۔ اپنے لیے وقت کہاں سے لائیں کہ ہم تو اپنے بچوں کو بھی وقت نہیں دے سکتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب کرونا نے قیامت ڈھائی ہے تو وہ لوگ جو ہمیں قصائی کہتے تھے اب ہمیں قوم کے سپاہی کہہ رہے ہیں۔ ہمیں کسی سے بھی کوئی گلہ نہیں مگر جس طرح قوم اپنے فوجی سپاہیوں کو بندوق دے کر سرحد پر حفاظت کے لیے کھڑا کرتے ہیں پلیز ہمیں بھی کچھ حفاظتی چیزوں کا بندوبست تو کر دیں۔

ہم تو ایسے بے یارومددگار سپاہی ہیں کہ جو دشمن کے وار سے خود کو بھی نہیں بچا پا رہے ہیں۔ نہ کوئی مورچہ ہے نہ کوئی بندوق۔ لگتا ہے غازی بنیں نہ بنیں شہید پکے ہوں گے۔

اللہ بھلا کرے کافروں کا جنہوں نے سمارٹ فون اور وٹس ایپ کی سہولت مہیا کر رکھی ہے ورنہ تو تین دن سے اپنے بچے کو بھی نہ دیکھ پاتی۔ میرا بیٹا پوچھتا ہے ’مما گھر کب آؤ گی‘ تو دوسری طرف منہ پھیر لیتی ہوں کہ آنسو نہ دیکھ لے۔ بس کرونا نہ ہوا تو 15 دن بعد ضرور گھر جاؤں گی۔

اس یقین کے ساتھ ڈیوٹی کر رہی ہوں کہ میرے ڈر کے بھاگ جانے سے اگر کسی مریض کو طبی امداد نہ ملی تو میری ڈاکٹری کا کیا فائدہ۔ مزید یہاں ہسپتال میں پڑے رہنے کا ایک ذاتی فائدہ بھی ضرور ہے کہ اگر مجھے کرونا انفیکشن ہو چکا ہے تو میرے دور رہنے سے میرا بیٹا اور میاں بھی تو محفوظ ہیں۔

بیٹے کو گلے لگانے کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں پڑے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑ سکتی کیونکہ اب تو آپ سب ہم ینگ ڈاکٹروں کو قوم کے سپاہی کہنے لگے ہیں۔ اب ہم سب نے لڑنا ہے یا مرنا ہے۔

نہ رہی تو فیصلہ آپ ہی کر لینا کہ میں ماں اچھی تھی یا ڈاکٹر سپاہی؟

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

اس تحریر کی مصنفہ نے اپنا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ