شیخ رشید پیپر کیوں آؤٹ کرتے ہیں؟

شیخ صاحب کی صرف ایک ہی کوشش اور خواہش کہ کسی نہ کسی طرح انہیں بقراط کا شاگرد مان کر عمران خان کے قریب بٹھایا جائے تاکہ وہ ہمہ وقت ان کی قربت اور خاص مشوروں سے مستفید ہوتے رہیں۔

شیخ رشید احمد بیان بازی، آئے روز پیش گوئی اور بڑھکیں مارنے میں شہرت رکھتے ہیں (اے ایف پی)

بچپن میں دیکھا اور سنا بھی کہ جب بھی امتحانات کا وقت قریب آتا ہے سکول یا محلے میں ایک ایسا نالائق لیکن چلتا پرزہ ضرور اچانک سے منظر عام پر آجاتا جو مشکل میں پھنسے دوستوں کے لیے پرچی اور پیپر آؤٹ کرنے میں ملکہ رکھتا ہو۔

بس پھر کیا ہر کس و ناقص اس کے گرد چکر لگانا شروع کر دیتا اور اس کی خاص آؤ بھگت ہوتی کہ ایک دو سوال ہی بتا دے۔

ایسا ہی کچھ معاملہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے ساتھ بھی ہے۔ جناب بھی بیان بازی، آئے روز کی پیش گوئی اور بڑھکیں مارنے میں شہرت رکھتے ہیں۔

میڈیا پر رہنے کا گر ان سے بہتر کوئی سیاست دان نہیں جانتا۔ ان سے پہلے یہ ہنر ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی خوب جانتی تھی لیکن غیر ضروری اور زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے وقت نے انہیں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔

شیخ رشید احمد نے لاہور میں نیوز کانفرنس کی، بظاہر یہ کانفرنس ریلوے کی صورت حال، ملازمین کی تنخواہوں اور امداد پر تھی لیکن موصوف پھر اسے اپنی تعریفوں اور سیاست کی طرف لے گئے۔

شیخ رشید نے سب کو مفت مشورے دیے، یہ وقت لڑائی اور سیاست کا نہیں، سب کو متحد و یکجا ہو کر کرونا (کورونا) وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔

دوسروں کو سیاست نہ کرنے کا قیمتی مشورہ دیتے رہے لیکن خود وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پر کھلی تنقید کر دی اور الزام عائد کیا کہ سب سے پہلے سیاست اور بیان بازیاں مراد علی شاہ نے شروع کیں۔

غالباً شیخ رشید وزیر اعلیٰ سندھ کی وہ نیوز کانفرنس بھول گئے، جس میں انہوں نے بار بار ہاتھ جوڑ کر میڈیا اور سب سے معافی مانگی اور سب کو ساتھ چلنے کی دعوت دی۔

شیخ صاحب کی صرف ایک ہی کوشش اور خواہش کہ کسی نہ کسی طرح انہیں بقراط کا شاگرد مان کر عمران خان کے قریب ہی بٹھایا جائے تاکہ وہ ہمہ وقت ان کی قربت اور خاص مشوروں سے مستفید ہوتے رہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موقع غنیمت جانتے ہوئے انہوں نے پھر چینی سکینڈل پر وزیراعظم کی تعریفوں کے پل باندھ ڈالے۔ ’پاکستان میں کسی کو ہمت نہ ہوئی کبھی اس طرح کے سکینڈل منظر عام پر لانے کی، یہ عمران خان ہی ہیں جنہوں نے سب کو بے نقاب کر دیا۔‘

شیخ رشید پھر خود ہی گویا ہوئے کہ جب عمران خان اپنے دیرینہ دوست جہانگیر ترین سے دوری اختیار کر سکتے ہیں تو پھر کسی اور کیا اہمیت، وہ کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

اس سے پہلے بارہا اپنی نیوز کانفرنس میں وزیر ریلوے خود سے کہتے رہے ہیں کہ 'جہانگیر ترین سے عمران خان کا گہرا تعلق اس رپورٹ کی وجہ سے ختم نہیں ہو سکتا۔'

'ابھی تو اس رپورٹ کا فرانزک چل رہا ہے اور 25 اپریل کو حتمی رپورٹ آنی ہے، جہانگیر ترین کہیں نہیں جا رہے، ان کا ساتھ رہے گا،' لیکن پریس کانفرنس میں ان کا موقف یکسر تبدیل ہو گیا۔ اب کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین سے دوری کر لی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ رشید نے آج جو کہا وہ سچ ہے یا پھر اس سے پہلے جو کہتے رہے وہ سب کچھ جھوٹ تھا؟

اسی طرح انہوں نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف پر بھی تنقید کر ڈالی۔ کہتے ہیں شہباز شریف کو پہلے ہی کینسر ہے اور اس وقت کرونا کی وبا ہے، جس نے انہیں بچا لیا۔ 'وہ تو پاکستان آنا ہی نہیں چاہتے تھے اور اگر میں کل دم نہیں کرتا تو وہ پکڑے جاتے۔'

یہی نہیں شیخ صاحب نے نیوز کانفرنس میں مفاہمت کا پرچہ بھی آؤٹ کر دیا کہ حکومت میڈیا کے ساتھ دوستی کرنے جا رہی ہے۔ ’وزیرا عظم کو میں نے منا لیا ہے۔ میڈیا نے کرونا وبا کے دوران بہت اچھا کام کیا ہے، اس لیے ساری تلخیاں دور ہو جانی چاہییں۔‘

انہوں نے بین بین بتا دیا کہ جنگ گروپ کے ساتھ مفاہمت ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشتہارات کا اجرا دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔

شیخ رشید احمد صاحب نے محض چند روز پہلے جی این این کے ایک پروگرام میں دھماکہ کیا تھا کہ پاکستان فارغ ہو گیا تھا، ڈیفالٹ کر چکا تھا، عمران خان خوش قسمت ہیں کہ یہ موقع مل گیا ورنہ کچھ نہیں بچتا۔

 کرونا وبا کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان نے عالمی اداروں سے غریب ملکوں کا قرضہ معاف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ قرضہ تو معاف نہیں ہوسکا لیکن آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے پاکستان کو مہلت دے دی۔

ساتھ ہی پاکستان کو آئی ایم ایف نے ایک ارب 40 کروڑ ڈالرز ہنگامی قرضہ دینے کی منظوری دے دی اور دیگرعالمی اداروں اور ممالک نے قرضے کی ادائیگی میں بھی چھوٹ دے دی۔

شیخ رشید کو پرچہ جلدی آؤٹ کرنے کا کیا شوق ہے؟ یہ ایک معمہ ضرور ہے لیکن اس مرتبہ تو انہوں نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے سے متعلق پرچہ آوٹ کر دیا، لیکن اس پر بھی ہر جانب سے خاموشی کیوں رہی۔

باتیں کہنے کا بھی کوئی سلیقہ ہوتا ہے۔ عمران خان کو خوش قسمت کہہ کر کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ تمام ادارے سو رہے ہیں؟ کسی کو ملک کی پروا نہیں؟

کیا یہ ملک عمران خان کی خوش قسمتی کی وجہ سے چل رہا ہے؟ شیخ رشید احمد نے گذشتہ سال انتہائی خطرناک پیش گوئی کی تھی کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرے گا۔ خدا کا شکر ہے ایسا نہیں ہوا لیکن وزیر موصوف بارہا اس کا اعلان کرتے رہے تھے۔

شیخ رشید کی نیوز کانفرنسیں کور کرنے والے صحافی کہتے ہیں موصوف عموماً عوام میں تیزی سے مشہور ہونے والی باتیں زیادہ کرتے ہیں۔

اکثر ذومعنی باتیں بھی کرتے ہیں تاکہ اگر سچ ثابت ہو گئی تو وہ اسے بیچتے رہیں۔ شیخ رشید کو ایک یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے سینیئر سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔

 شیخ رشید اکثر یہ بھی کہتے رہے ہیں فلاں سیاست دان گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہے۔ لوگ تو ان کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ موصوف اکثر اوقات پیپر جلد آؤٹ کر دیا کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ