خاصہ دار فورس پولیس انضمام کے بعد الزامات اور گرفتاریوں کی زد میں

سابقہ پولیٹکل ایجنٹ رحمت اللہ وزیر کے مطابق ایف سی آر میں تمام قبائلی اضلاع میں کام کرنے والے خاصہ دار فورس کے اہلکار غیر قانونی چیک پوسٹوں سے پیسے جمع کرنے کو جرم ہی نہیں سمھجتے تھے بلکہ یہ اسے اپنا منافع قرار دیتے تھے۔

(ٹوئٹر)

پاکستان کے قبائلی اضلاع میں خاصہ دار فورس کو پولیس میں انضمام مہنگا پڑ گیا، پولیس کے  نظم و ضبط سے بے خبر اور غیر تربیت یافتہ اہلکار منشیات سمگلنگ، کرپشن اور امدادی رقوم لینے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
اس کی تازہ مثال تین اہلکاروں کی منشیات سمگلنگ کے الزام میں ملازمتوں سے برطرفی ہے۔
برطرفی کا یہ واقعہ ضلع خیبر میں پیش آیا جہاں اس سے پہلے کسی خاصہ دار اہلکار کو ملازمت سے فارغ کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 
خیبر میں ہی کرپشن کے الزام میں 70 اہلکاروں کو معطل کردیا اس کے علاوہ باجوڑ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مبینہ طور پر رقم حاصل کرنے والے 200 اہلکاروں کی رپورٹ آئی جی پولیس کو پیش کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب جنوبی وزیرستان میں چوبیس سے زیادہ عویض اہلکاروں کو گرفتار کرلیاگیا۔
سابقہ پولیٹکل ایجنٹ رحمت اللہ وزیر  کے مطابق ایف سی آر میں تمام قبائلی اضلاع میں کام کرنے والے خاصہ دار فورس کے اہلکار غیر قانونی چیک پوسٹوں سے پیسے جمع کرنے کو جرم ہی نہیں سمھجتے تھے بلکہ یہ اسے اپنا منافع قرار دے رہے تھے جس میں خاصہ دار سے لے کر پولیٹکل ایجنٹ تک ملوث تھے۔    
پولیس سربراہ ضلع خیبر ممحمد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حسین اکبر، محمد طاہر اور انوار خان تینوں پر الزام تھا کہ وہ منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں اور تینوں پر محکمانہ کارروائی میں الزام ثابت ہو گیا جس کے بعد انہیں ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک کا تعلق باڑہ اور دو کا تعلق جمرود سے بتایا جاتا ہے۔
 انہوں نے بتایا کہ تینوں اہلکار پہلے خاصہ دار فورس میں ملازم تھے اور اس وقت پولیس میں سپاہی کے عہدوں پر اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے تھے۔
محمد اقبال کا کہنا تھا کہ 'قبائلی اضلاع میں کام کرنے والے خاصہ دار فورس اور لیویز فورس اب پولیس کا حصہ ہیں اور پولیس میں ایسی کالی بھیڑوں کی کوئی گنجائش نہیں اور اس طرح بدعنوانی، رشوت خوری اور دیگر جرائم میں ملوث اہلکاروں کو پولیس سے نکال باہر کیا جائے گا۔ پولیس کے اندر احتسابی عمل جاری رہے گا۔'
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ 70 اہلکاروں کو کرپشن کے الزام میں معطل کردیا ہے جب ان پر کرپشن ثابت ہوجائے گی تو سب کو نوکریوں سے فارغ کردیا جائِے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جن اہلکاروں کو برخاست کیا ہے وہ منشیات کے سمگلنگ میں ملوث تھے اور معطل ہونے والے اہلکاروں پر کرپشن کے الزامات ہیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ پولیٹکل ایجنٹ رحمت اللہ خان وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کی پولیس کی طرح کسی قسم کی کوئی تربیت نہیں ہوئی اور نہ ہی خاصہ دار فورس پولیس میں شامل ہونے سے پہلے کسی منظم فورس میں شامل تھی بلکہ خاصہ دار فورس بینادی طور پھر تمام معاملات میں حصہ دار تھی۔ خاصہ دار کی تنخواہ پورے خاندان میں تقسیم ہوتی تھی کیوں کہ خاندان کا کوئی فرد بھی ڈیوٹی کے لیے جاسکتا تھا۔ ایک مہینے میں کوئی ایک شخص آتا تھا تو دوسرے مہینے میں کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ ڈیوٹی پر بھیج دیا جاتا تھا۔
انہوں نے بتایا: 'قبائلی اضلاع میں کام کرنے والے خاصہ دار فورس ایک منظم فورس نہیں تھی بلکہ وہ پولیٹکل ایجنٹ کے حکم کے مطابق کام کرتے تھے۔ دوسرا یہ کہ ایف سی آر میں پولیٹکل ایجنٹ حساب کتاب رکھنے کا مجاز نہیں تھا اور نہ ہی کوئی خاصہ دار فورس کے خلاف یا پولیٹکل ایجنٹ کے خلاف عدالت جا سکتا تھا، ان تمام وجوہات کے باعث وہ آزادانہ طور سمگلنگ اور کرپشن میں ملوث تھے۔' 
انہوں نے بتایا کہ پولیٹکل ایجنٹ کے پاس یہی غیر قانونی چیک پوسٹوں اور سمگلنگ کی آمدنی آتی تھی جس سے نہ صرف قبائلی عمائدین کو نوازتے تھے بلکہ صحافیوں کو بھی بھاری رقم ادا کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ 'قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خطرے کے باوجود وہ منافع بخش پوسٹوں پر ٹرانسفر کے لیے بیورکریٹس کو رشوت یا سفارش کا سہارا لیتے تھے۔'
اس کے علاوہ  باجوڑ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پیسے وصول کرنے والے دو سو اہلکاروں کے خلاف تحقیات کا عمل جاری ہے اور پولیس سربراہ نے اس میں ملوث تمام اہلکاروں کو ملازمت سے فارغ کرنے کا عندیہ دیا ہے جس پر علاقے میں سخت غم و غصہ سامنے آیا ہے۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہی خاصہ دار اور لیویز فورس کے تنخواہیں بہت کم تھیں جس کے باعث وہ مجبورا بے نظیر انکم پروگرام سے امداد لینے کے لیےغریبوں کے فہرست میں شامل ہوگئے تھے۔
جنوبی وزیرستان میں بھی عویض پولیس اہلکاروں کے خلاف کریک ڈون کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک دو درجن سے زیادہ اہلکاروں کو گرفتار کرلیا ہے۔
عویض اس پولیس اہلکار کو کہتے ہیں جو دوسرے کی جگہ ڈیوٹی دیتا ہے۔
غریبوں کے فہرست میں شامل اور عویض اہلکاروں پر تبصرہ کرتے ہوئے رحمت اللہ نے کہا کہ پہلے  ان اہلکاروں ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ ٹریننگ کے بغیر پولیس میں ضم ہونے والے خاصہ دار فورس کے خلاف ایکشن لینا زیاتی ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ عویض کی حثیت سے کام کرنا پولیٹکل انتظامیہ کے نظام میں قانونی تھا اور چیک پوسٹوں سے آنے والی آمدنی بھی  فنڈ کا حصہ تھی۔
مبصرین کے خیال میں قبائلی اضلاع میں پہلے سے موجود خاصہ دار فورس کے اہلکار غیر تربیت یافتہ ہیں  اور آنے والے دنوں میں اس طرح کے مذید واقعات سامنے آئیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان