کرونا وائرس: چینی ویکسین کے پاکستان میں ٹرائلز کب اور کیسے؟

چین کی ایک دوا ساز کمپنی سائنوفارم نے پاکستان کے قومی ادارۂ صحت (این آئی ایچ) کو کرونا (کورونا) وائرس کی ویکسین کے ٹرائلز میں شمولیت کی پیشکش کی ہے۔

کسی بھی ویکسین کی تیاری کا اولین مرحلہ لیبارٹری میں طے پاتا ہے جب اسے انفرادی خلیوں اور جانوروں پر آزما کر دیکھا جاتا ہے کہ کسی بیماری کے خلاف کتنی موثر ہے (اے ایف پی)

چین کی ایک دوا ساز کمپنی سائنوفارم نے پاکستان کے قومی ادارۂ صحت (این آئی ایچ) کو کرونا (کورونا) وائرس کی ویکسین کے ٹرائلز میں شمولیت کی پیشکش کی ہے۔

این آئی ایچ کو بھیجے گئے ایک خط میں سائنو فارم نے لکھا گیا ہے:  ’سائنو فارم سمجھتی ہے کہ این آئی ایچ کے پاس ضروری تکنیکی مہارت اور وسائل موجود ہیں جن کی بنا پر وہ اس کلینکل ٹرائل کا حصہ بن سکتی ہے۔‘

اسی پر ایک طبی ماہر نے کہا کہ اگر یہ ٹرائل پاکستان میں کامیاب ہو گئے تو ہو سکتا ہے کہ چین پاکستان کو مفت ویکسین فراہم کرے، جو ایک بڑی کامیابی ہو گی۔

اس وقت دنیا بھر کے مختلف ادارے کرونا وائرس کے خلاف 70 سے زیادہ ویکسینوں پر کام کر رہے ہیں اور سائنو فارم ان میں سے ایک ہے۔

دنیا بھر کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ موثر اور محفوظ ویکسین ہی کرونا وائرس کی وبا کا حل ہے اور جب تک یہ ویکسین تیار نہیں ہو جاتی، اس وقت تک دنیا پر اس خطرناک وائرس کی تلوار لٹکتی رہے گی۔  

کلینیکل ٹرائلز ہیں کیا؟

کسی بھی ویکسین کی تیاری کا اولین مرحلہ لیبارٹری میں طے پاتا ہے جب اسے انفرادی خلیوں اور جانوروں پر آزما کر دیکھا جاتا ہے کہ کسی بیماری کے خلاف کتنی موثر ہے۔

اس کے بعد اگلا مرحلہ کلینکل ٹرائل کا ہے۔ کوئی بھی ویکسین اس وقت تک مارکیٹ میں نہیں آ سکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ بیماری کے خلاف موثر ہے اور اس کا فائدہ نقصان کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

اس مقصد کے لیے اس ویکسین کو پہلے تجرباتی بنیادوں پر محدود پیمانے پر آزمایا جاتا ہے اور اسے صحت مند رضاکاروں کو دینے کے بعد ان کی نگرانی کی جاتی ہے کہ آیا انہیں یہ مرض لاحق ہوا یا نہیں، اور یہ کہ ویکسین کے مضر اثرات کتنے ہیں۔

چینی دوا ساز کمپنی سائنوفارم کی تیار کردہ غیر فعال کووڈ۔19 کی ویکسین کی لیبارٹری میں اور جانوروں پر جانچ مکمل کر لی گئی ہے اور اب باری ہے اس ویکسین کو انسانوں پر چیک کرنے کی۔

گذشتہ 30 سال سے پبلک ہیلتھ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر راشد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کلینیکل ٹرائلز ہمیشہ تھوڑے افراد سے شروع کیے جاتے ہیں اور کامیابی کی صورت میں آہستہ آہستہ ان میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ 

یہ سارا عمل انسانوں پر ویکسین کے براہ راست فوائد اور نقصانات کے مشاہدے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

امریکی ادارہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی ویب سائٹ پر چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق کلینیکل ٹرائلز چار مراحل میں کیے جاتے ہیں۔

پہلے مرحلے میں دوا یا ویکسین عام طور پر 20 سے 80 افراد کو دی جاتی ہے تاکہ محفوظ خوراک کی حد (ڈوز) اور اس کے مضر اثرات (سائیڈ ایفکٹس) کا اندازہ لگایا جا سکے۔

دوسرے مرحلے میں ویکسین 100 سے 300 افراد پر آزمائی جاتی ہے اور پہلے مرحلے میں پائے جانے والے محفوظ اور برے اثرات کا مزید مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ مرحلہ کئی سالوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔

تیسرے مرحلے کا مقصد تحفظ اور تاثیر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے علاوہ مختلف عمر اور رنگ و نسل کے لوگوں پر تجربہ کیا جاتا ہے اور مختلف خوراکوں کا مطالعہ اور دوسری دواؤں کے ساتھ استعمال کی جانچ ہوتی ہے۔ اس مرحلے میں کئی سو سے تین ہزار افراد پر ویکسین آزمائی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوا یا ویکسین کے استعمال کی حتمی حکومتی منظوری کے بعد چوتھے مرحلے میں یہ بہت بڑی مختلف افراد پر مشتمل آبادی کو دی جاتی ہے۔

رضاکار کون ہوں گے؟

شوکت خانم ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر سمعیہ نظام الدین کا کہنا تھا کہ کلینیکل ٹرائلز میں لوگ رضاکارانہ طور پر ہی شامل ہو سکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں پر ویکسین جانچی جائے گی ان سے متعلق یہ یقین کر لینا ضروری ہو گا کہ وہ ہر لحاظ سے صحت مند ہیں اور خاص طور پر دیکھا جائے گا کہ وہ کرونا وائرس سے متاثر نہیں ہیں۔

ان کا خیال تھا کہ کلینیکل ٹرائلز کے پہلے مراحل میں کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر موجود افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے پولیس اہلکار اور ہیلتھ ورکرز موزوں لوگ ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کلینیکل ٹرائلز مختلف شہروں، شعبوں، حالات اور اصناف سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں پر کیے جائیں گے۔

ڈاکٹر سمیعہ نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لمبے عرصے تک  استعمال میں رہے بغیر ویکسین کے مضر اثرات واضح نہیں ہو سکتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کووڈ۔19 کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز میں حصہ لینے والوں کی تعداد ہزاروں میں بھی ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر راشد اقبال نے کہا کہ کلینیکل ٹرائلز ان قواعد اور ایس او پیز کے مطابق کیے جائیں گے جو ویکیسن تیار کرنے والوں نے ترتیب دیے ہیں۔ 

ٹرائلز میں کتنے گروپ ہوں گے؟ گروپوں میں کتنے لوگ ہوں گے اور اس سارے عمل میں کتنا عرصہ لگے گا؟ ان تمام سوالات کے جواب ان قواعد میں موجود ہونے چاہیے جو سائنوفارم نے ترتیب دیے ہیں۔

ڈاکٹر سمیعہ نے کہا کہ ٹرائلز میں حصہ لینے والے رضاکاروں کی صحت کا تحفظ تحقیق کرنے والے ادارہ کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔

’اگر ضرورت پڑے تو رضاکاروں کی انشورنس بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ ویکسین کے مضر اثرات کی صورت میں ان کی صحت کو پہنچنے والے نقصانات کا مداوا بہتو طور پر ممکن ہو سکے۔‘

ٹرائلز کب شروع ہو سکتے ہیں؟

چینی کمپنی سائنوفارم، پاکستان میں اس کے نمائندہ ادارے ہنی بی اور این آئی ایچ کے درمیان ایک سہ فریقی مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) طے پائے گی جس کے تحت پاکستان میں ویکسین فیز ون اور ٹو کے کلینیکل ٹرائلز کیے جائیں گے۔

ڈاکٹر راشد اقبال کے خیال میں ستمبر سے قبل کلینیکل ٹرائلز شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کم از کم چار سے پانچ ادارے ہیں جہاں سے اس کی منظوری آئے گی اور یہ ایک لمبا کام ہے۔

ڈاکٹر سمیعہ نے کہا کہ دنیا کی کئی کمپنیاں دواؤں اور ویکسینز کے کلینیکل ٹرائلز پاکستان میں کرنا چاہتی ہیں، لیکن طویل اور غیر ضروری کاغذی کاروائیوں کے باعث وہ ناامید ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

ان کے خیال میں کرونا وائرس کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز پاکستان میں بہت جلد شروع نہیں ہو پائیں گے۔

پاکستان میں ادویات سے متعلق قوانین نافذ کرنے والے ادارہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے ایک سینئیر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابھی تک انہیں ان ٹرائلز سے متعلق اطلاع نہیں ہے۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ڈریپ میں ایسی کسی بھی درخواست کو متعلقہ قوانین کے مطابق دیکھا جائے گا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ان مجوزہ کلینیکل ٹرائلز سے متعلق فوری فیصلے بھی کیے جا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر سمعیہ نے کہا کہ کلینیکل ٹرائلز کی دوسرے سرکاری اداروں کے علاوہ نیشنل بائیو ایتھیکل کمیٹی سے منظوری بہت ضروری ہو گی۔

اسی طرح انہوں نے کہا کہ این آئی ایچ کے پاس اپنا ہسپتال نہ ہونے کے باعث ٹرائلز کسی دوسرے ہسپتال میں کیے جائیں گے۔ ایسی صورت میں اس فیسیلیٹی کی ایتھیکل کمیٹی سے بھی منظوری ضروری ہو گی۔

اس سوال کے جواب میں کہ ٹرائلز کی تکمیل پر کتنا عرصہ لگ سکتا ہے؟ ڈاکٹر سمعیہ نے کہا کہ اس مرحلہ پر اس متعلق کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا :پاکستان میں کووڈ۔19 کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ یہ سب سے پہلے ہمیں ملے گی اور ہو سکتا ہے کہ کامیاب کلینیکل ٹرائلز اور ویکسین کی منظوری کے بعد چین پاکستان کو مفت ویکسین فراہم کر دے، جو پاکستان کے لیے یقیناً ایک بڑی کامیابی ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت