بنگلہ دیش میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی، سینکڑوں فیکٹریاں کھل گئیں

فیکٹریاں مالکان کا کہنا ہے کہ ان پر آرڈر پورے کرنے کا دباؤ تھا ورنہ آرڈر چین اور ویت نام کو مل جاتے۔

بنگلہ دیش کو زیادہ تر آمدن  گارمنٹس فیکٹریوں میں تیار ہونے والی برآمدات سے ہوتی ہے(اے ایف پی)

بنگلہ دیش میں مالکان نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اتوار کو سینکڑوں گارمنٹس فیکٹریاں کھول دیں، جس کے بعد ان فیکٹریوں کے مزدوروں کے، جن کی اکثریت خواتین ہیں، کرونا (کورونا) وائرس سے متاثر ہونے کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔

دنیا بھر میں لاک ڈاؤنز کے باعث بڑے عالمی برینڈز نے بنگلہ دیش کو دیے جانے والے اربوں ڈالرز کے آرڈر منسوخ یا موخر کر دیے ہیں۔

بنگلہ دیش میں فیکٹریاں بند ہونے سے صنعتی شعبہ تقریباً دیوالیہ ہو چکا ہے۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش کو زیادہ تر آمدن انہی فیکٹریوں میں تیار ہونے والی برآمدات سے ہوتی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فیکٹریوں کو مارچ کے آخر میں بند کیا گیا تھا لیکن اب مالکان کا کہنا ہے کہ انہیں آرڈرز وقت پر تیار کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔

بنگلہ دیش میں مینوفیکچررز اور ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد حاتم کا کہنا ہے کہ 'ہمیں کرونا وائرس کو زندگی کے ایک حصے کے طور پر قبول کرنا ہو گا۔ اگر ہم کارخانے نہیں کھولیں گے تو ایک معاشی بحران پیدا ہو جائے گا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ان کی فیکٹری نے وہ حصہ کھول دیا ہے جو برطانیہ سمیت کئی ممالک کے لیے سامان تیار کرتا ہے۔

حاتم کے مطابق ان فیکٹریوں پر سامان وقت پر تیار کرنے کا دباؤ تھا ورنہ اربوں ڈالرز کے آرڈر ویت نام یا چین کے کارخانوں کو مل جاتے۔

بنگلہ دیش بھر میں پھیلی ہزاروں گارمنٹس فیکٹریوں میں تقریباً 40 لاکھ مزدرو کام کرتے ہیں۔ گذشتہ سال بنگلہ دیش نے 35 ارب ڈالرز کا سامان بیرون ملک بھیجا جو چین کے بعد سب سے زیادہ تھا۔

بنگلہ دیش سے سامان خریدنے والوں میں وال مارٹ، انڈی ٹیکس اور ایچ اینڈ ایم جیسے عالمی برینڈز شامل ہیں۔ ہفتے کے اختتام پر غازی پور اور اشولیا کے علاقوں میں موجود سینکڑوں کارخانوں کو بھی کھول دیا گیا۔ یہ علاقے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافات میں ہیں۔

پولیس ترجمان جین عالم نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'تقریبا ً دو لاکھ مزدور اشولیا کی فیکٹریوں میں واپس کام پر آ چکے ہیں۔'

ایک فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور مفضل حسین کا کہنا ہے کہ وہ فیکٹری میں کام پر واپس آنے پر مجبور ہیں۔ مہینے کے 115 ڈالرز کمانے والے مفضل کے مطابق 'کرونا کا ڈر ابھی بھی موجود ہے لیکن میں ابھی نوکری اور تنخواہ کھونے سے ڈرتا ہوں۔'

مزدوروں کے حقوق کی تحریک چلانے والے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ مزدروں کی واپسی کے بعد کرونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے خدشات کا شکار ہیں۔

اس حوالے سے سرگرم کلپنا اختر کا کہنا ہے کہ 'اس کا اثر رانا پلازہ سے بھی زیادہ برا ہو گا۔' ان کا اشارہ 2013 میں زمین بوس ہونے والی گارمنٹ فیکٹری کی جانب تھا، جس میں 1130 مزدور دب کر ہلاک ہو گئے تھے۔'

بنگلہ دیش 16 کروڑ 80 لاکھ نفوس کی آبادی والا ملک ہے اور یہاں ابھی تک کرونا کے 5500 مصدقہ کیس جبکہ 145 ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وسائل کی کمی اور ٹیسٹنگ صلاحیتیں نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی اصل تعداد کئی گنا ہو سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا