سندھ: کرونا اور لاک ڈاؤن سے پھیلتے نفسیاتی مسائل کے لیے ہیلپ لائن

سولہ ماہرین نفسیات پر مشتمل ہیلپ لائن 1093 ٹیم اب تک 27 کیسز دیکھ چکی ہے۔

ہیلپ لائن کی انچارج پیمان ملک ۔

سندھ حکومت نے صوبے کے عوام کی نفسیاتی صحت کے لیے خصوصی ہیلپ لائن قائم  1093 کی ہے۔

چوبیس سالہ عروبہ علی (فرضی نام) پہلے تین دن تک اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں کہ وہ کرونا وائرس کا شکار ہوگئی ہیں۔ تین دن بعد جب بالآخر انہوں نے ٹیسٹ کروایا تو وہ مثبت آیا۔ 

ایسے میں موت کے خوف اور اضطراب نے انہیں گھیر لیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس اثنا میں ان کے مرض میں بھی شدت آئی اور ان کا سانس لینا دشوار ہوتا چلا گیا، جس سے انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اب نہیں بچ سکتیں۔

وہ اپنے گھر میں ہی قرنطینہ میں چلی گئیں، آٹھویں روز ان کی جسمانی حالت کچھ بہتر ہوئی تاہم ان کی ذہنی حالت تباہ ہوچکی تھی۔

اس دوران انہیں سوشل میڈیا سے سندھ حکومت کی ذہنی امراض اور نفسیاتی صحت کے لیے قائم کی گئی مددگار سروس (فون ہیلپ لائن) 1093 کے بارے میں معلوم ہوا۔ انہوں نے فوری طور پر رابطہ کیا جہاں موجود ماہرِ نفسیات کی مدد کے بعد وہ اب بہتر حالت میں ہیں۔

عروبہ سے ماہرِ نفسیات پیمان ملک نے بات کی اور ان کا نفسیاتی علاج شروع کیا جس میں باقاعدہ سیشن شامل تھے۔

پیمان اس ہیلپ لائن کی انچارج ہیں اور وہ اس وقت 15 ماہرینِ نفسیات کی ٹیم کے ہمراہ اپنے گھروں میں فون پر موجود ہوتی ہیں۔یہ ٹیم اب تک 27 کیسز دیکھ چکی ہے۔

پیمان نے بتایا کہ عروبہ صرف ایک کیس ہیں، اس وقت ملک میں جاری کرونا وبا سے متاثرہ افراد، ان کے اہل خانہ کے علاوہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے طویل عرصے تک گھروں میں مقیم افراد بھی مختلف قسم کے نفسیات مسائل کا شکار ہو رہےہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے افراد کی مدد کے لیے سندھ حکومت کے محکمہ بلدیات نے یو این ڈی پی پاکستان اور بیسٹ پاک کے تعاون سے سرکاری اور نجی شعبے کے اشتراک کے اصول کے تحت یہ مددگار سروس 1093شروع کی۔

اس ہیلپ لائن پر مدد کے لیے آنے والی ایک اور کال کے بارے میں پیمان نے بتایا کہ جب انہیں 18 سالہ آمنہ (فرضی نام) کا کیس ملا، جو خود کرونا وائرس کا شکار نہیں تھیں مگر یہ خوف ہی ان کے لیے شدید تھا کہ انہیں کرونا وائرس لگ سکتا ہے۔

تاہم جب ان کے کیس کی تفصیلات دیکھی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ پہلے سے شیزوفرینیا کی مریض ہیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ متاثر ہوئی ہیں، اس دوران انہیں تجویز کردہ دوا بھی نہیں ملی اور یوں یہ کیس مزید بگڑ گیا۔

پیمان نے بتایا کہ ایسے سنگین کیسز کو وہ سائیکیٹرسٹ کو بھیج دیتے ہیں کیونکہ انہیں صرف سائیکوتھراپی سے بہتر نہیں کیا جاسکتا بلکہ انہیں دوا بھی دینا ہوتی ہے۔

حکومتِ سندھ کے محکمہ بلدیات کے سیکریٹری روشن علی شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں لوگوں کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہونے کی بہت زیادہ شکایات موصول ہورہی تھیں۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یو این ڈی پی اور بیسٹ پاک کے تعاون سے حکومتِ سندھ نے یہ کال سینٹر بنایا جہاں فون پر متاثرہ افراد کو نفسیاتی مدد فراہم کی جاتی ہے۔

'جب کوئی 1093 پر فون کرتا ہے تو آپریٹر ان کا نام اور نمبر ایک ماہرِ نفسیات کو بھیج دیتا ہے، جو اپنے گھروں میں موجود ہوتے ہیں اور وہ خود متاثرہ شخص کو کال کرتے ہیں تاکہ طویل گفتگو میں ان کا بِل نہ بنے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں ماہرین نفسیات کو خصوصی نمبرز فراہم کیے گئے ہیں۔ 'ماہرین نفسیات کا اپنے گھروں میں ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ سماجی فاصلہ رکھنے کا وقت ہے اور اس لیے ٹیکنالوجی کی مدد لی جارہی ہے۔'

روشن کے مطابق یہ ابتدائی مرحلہ ہے اور اس فون اور ویب سائٹ کا پتہ https://covidpss.pk ہے۔ یکم مئی سے اینڈرائڈ فون کی ایپ بھی اپنا کام شروع کردے گی۔

سیکریٹری مقامی حکومت سندھ روشن علی نے کہا کہ ان کا سب سے اہم منصوبہ قرنطینہ اور ہسپتالوں میں ملٹی میڈیا سیٹ اپ لگانا ہے جس کا مقصد وہاں کام کرنے والے طبی عملے کو، جو سب سے کٹ جاتے ہیں اور کئی قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں، مدد فراہم کرنا ہے۔ 

'ایسے افراد کے لیے خصوصی سیشنز کا انعقاد کیا جارہا ہے اور ان کے لیے ویڈیو لنک کے ذریعے ویب نار سندھ بھر میں منعقد کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں مختلف این جی اوز کا تعاون حاصل کیا گیا ہے اور اس پر آئندہ ایک ہفتے میں عمل شروع ہوجائے گا۔'

ماہرینِ نفسیات کی تعداد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ابتدا 10 سے کی تھی، پھر چھ مزید شامل ہوئے اور آئندہ چار روز میں 10 مزید ماہرینِ نفسیات اس میں شامل ہورہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام ماہرین میں صرف ایک مرد ہے، باقی تمام خواتین ہیں کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ نفسیاتی مسائل خواتین ہی کو درپیش ہیں۔

'اگلے مرحلے میں زچہ خواتین کے لیے بھی اسی ہیلپ لائن پر مفت مشورہ فراہم کیا جائے گا جس کے بعد دیگر جسمانی مسائل کے لیے ٹیلی ڈاکٹر بھی موجود ہوں گے۔ سندھ حکومت کا منصوبہ ہے کہ اس طرح تقریباً ایک لاکھ افراد کو آنے والے چند ماہ میں مدد فراہم کی جائے گی۔'

اس پروگرام کے فوکل پرسن خرم ارسلان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابھی اس کی باقاعدہ تشہیر نہیں کی گئی اور اس کے بارے میں لوگ ایک دوسرے سے جان رہے ہیں،البتہ آئندہ چند روز میں اس کا باقاعدہ اعلان کردیا جائے گا۔ 'ابھی ہم اسے آزمائشی بنیاد پر چلا رہے ہیں تاکہ اپنی خامیوں کو بہتر کرسکیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہیلپ لائین نمبر 24 گھنٹے کام کررہے ہیں اور کسی بھی وقت اس پر فون کر کے ماہرین نفسیات سے وقت طے کیا جاسکتا ہے، تاہم فی الحال ماہرین صرف صبح نو سے شام پانچ بجے تک نفسیاتی مدد فراہم کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس ہیلپ لائن پر لوگ راشن کے لیے بھی فون کردیتے ہیں اور دیکھا جائے تو یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے تو ایسے لوگوں کے نمبر ہم متعلقہ محکمے یا این جی اوز کو دے دیتے ہیں تاکہ ان کی مدد ہوسکے۔

ماہرین نفسیات کی انچارج پیمان ملک نے بتایا کہ قرنطینہ میں رہنے والے افراد ماحول سے گھبرانے کی شکایت زیادہ کرتے ہیں جبکہ گھروں میں موجود خواتین اس وائرس سے خوف زدہ ہیں، وہ اس سے بچنے کے بارے میں دریافت کرتی ہیں خاص کر انہیں اپنے بچوں کی بہت زیادہ فکر ہوتی ہے۔ 

'چند کیسز میں جب ہم فون کرتے ہیں تو پہلے پہل مرد بات کرتے ہیں تاہم وہ خاتون کی آواز سن کر فون متاثرہ خاتون کو دے دیتے ہیں۔'

بیسٹ پاک یو این ڈی پی کے اس پروگرام کے مینیجر اعجاز خان کا کہنا تھا کہ آن لائن، ٹیلی فون اور موبائل ایپ کے ساتھ ساتھ اب مزید ذرائع شامل کرنے پر کام ہورہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت