کرونا چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کی وجہ بن سکتا ہے

گو کہ صدر ٹرمپ اس بارے میں کھلے عام نہیں کہتے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ چین سے کووڈ 19 کے نقصانات کا 'ازالہ' کرنے کا مطالبہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر چین کبھی راضی نہیں ہو گا۔

جون 2019 میں اوساکا میں جی 20 سمیٹ کی سائڈ لائنز پر صدر ٹرمپ اور صدر شی کی ملاقات (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چین کو کرونا (کورونا) وائرس کا مورد الزام ٹھہرانے کے بیانات درست ہیں یا نہیں اور اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ہے لیکن یہ حقیقت کہ صدر ٹرمپ اس بات کو مانتے ہیں یہی اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ حتیٰ کے صدر ٹرمپ کے تند و تیز مزاج کے لحاظ سے بھی ان کی آواز میں یہ غصہ حقیقی نظر آتا ہے جب وہ کہتے ہیں کہ وہ انٹیلی جنس شواہد دیکھ چکے ہیں جن کے مطابق یہ وائرس ووہان کی لیبارٹری سے آیا ہے۔

کشیدگی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو صدر ٹرمپ کے وفادار ساتھی ہیں اور وہ آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس وائرس کے چینی لیبارٹری سے آنے کے 'کافی شواہد' دیکھ چکے ہیں۔

گر یہ چمگادڑوں سے بھی پیدا ہوا ہے تو یہ ہمیشہ سے قدرت کا حصہ رہا ہے اور اگر یہ جانوروں کی مارکیٹ میں ایک سے دوسرے جانور کو منتقل بھی ہوا ہے تو بھی یہ ایک سینئیر امریکی عہدیدار کی جانب سے جاری کیے جانے والا بہت اہم بیان ہے۔

اس حوالے سے مغربی انٹیلی جنس ادارے 'فائیو آئیز' (جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں) کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق چین نے اس وبا کے پھیلاؤ کو تسلیم کرنے سے پہلے اسے چھپانے اور طبی سامان کا اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی۔

چینی حکام ان الزامات اور ان کے پیچھے موجود متکبرانہ اور قربانی کا بکرا تلاش کرنے والی سوچ کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ لندن میں چینی سفارت کار لیو زائومنگ قابل فہم طور پر کہتے ہیں کہ چین بھی کووڈ 19 سے متاثر ہے اور کوئی اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ وائرس کہاں سے شروع ہوا ہے۔

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ چین نے اس وبا کے بارے میں دنیا کو جتنا جلدی ہو سکتا تھا آگاہ کر دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بات ایک طرح سے اتنی اہمیت نہ رکھتی اگر صدر ٹرمپ اس کو چین کے ساتھ تنازعے کے لیے استعمال نہ کرتے جیسے کے باقی مغربی ممالک کے ساتھ کیا گیا۔

صدر ٹرمپ پہلے ہی کافی تنازعات میں الجھے ہیں، آخر کار امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ، بڑی ٹیک کمپنی ہواوے کا اثر و رسوخ، چین کے شمالی ایشیا میں سمندری داؤ پیچ ہوں یا علاقوں پر ملکیت کے دعوے، یا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے چینی معاشی طاقت کی توسیع، ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس بیجنگ سے پہلے ہی کافی لڑائی مول لے چکا ہے اور ان دونوں کے درمیان تجارتی جنگ اور جنوبی چین کے سمندر میں بندوق بردار کشتیوں کی سفارت کاری جاری ہے۔

گو کہ صدر ٹرمپ اس بارے میں کھلے عام نہیں کہتے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ چین سے کووڈ 19 کے نقصانات کا 'ازالہ' کرنے کا مطالبہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر چین کبھی راضی نہیں ہو گا اور جو امریکہ کبھی حاصل نہیں کر سکے گا اور یہ بات طویل عرصے تک تنازعے کا باعث رہے گی۔

کرونا وائرس پر یہ دوطرفہ عدم اعتماد اور شکوک و شبہات پہلے سے ہی خراب ہوتے ان تعلقات میں مزید دراڑ پیدا کریں گے۔ اس وبا کے بعد چین کے اور امریکہ کے درمیان تعلقات قطع کرنے اور ایک سرد جنگ کے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

اس کو حل کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ناقابل فہم ہی سہی لیکن صدر ٹرمپ کے چینی صدر شی کے ساتھ تعلقات مضبوط ہیں جو کہ معاملات کو آخری حد تک جانے سے روک سکتے ہیں۔ ابھی تک چین نے امریکہ یا آزادانہ تفتیش کاروں کو ووہان کی پبلک ہیلتھ لیبارٹری کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جہاں عالمی ادارہ صحت کی ٹاسک فورس کی ایک بین الااقوامی تحقیق جس میں چین بھی شامل ہو، طرفین کو اس مخصوص معاملے میں مطمئن کر سکتی ہے۔ گلوبلائزیشن کی تین دہائیاں اور ٹرانس پیسفک سمندری علاقوں تک پھیلی اشیا کی رسد اور صنعتی معاونت کو مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن ہے۔

نومبر میں وائٹ ہاوس میں شخصیت کا تبدیل ہونا بھی اس کشیدگی کو روک سکتا ہے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ جو بائیڈن چین پر بہت نرم رویہ رکھیں گے۔ صدر ٹرمپ کی یہ بات امریکہ کے عالمی حریف سے متعلق سخت رویے کو الیکشن مہم کا حصہ بنا سکتی ہے اور ان کی بیجنگ کے ساتھ سرد جنگ کو مقبول بنا سکتی ہے۔ یہ کرونا وائرس کا ایک بہت خطرناک نتیجہ ہو سکتا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا