کالعدم قرار دی گئیں سندھی قوم پرست تنظیمیں کیسے وجود میں آئیں؟

جی ایم سید کی جانب سے سندھ کی پاکستان سے علیحدگی کی تحریک تو 1970 کے اوائل سے شروع کی گئی مگر اس میں پرتشدد اور مزاحمتی پہلو 2000 سے شامل ہوا۔

جسقم آریسر گروپ کو کالعدم کرنے کے خلاف سندھ کے سماجی اور سیاسی کارکنان سوشل میڈیا پر مخالفت کرہے ہیں (سوشل میڈیا)

پاکستان حکومت نے گزشتہ روز کئی مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بنی تنظمیوں کے ساتھ سندھ کی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ (جسقم آریسر گروپ) کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ 

اس کے علاوہ سندھو دیش ریولوشنری آرمی اور سندھو دیش لبریشن آرمی نامی تنظیموں کو بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں اور تخریب کاری کے الزام میں کالعدم قرار دیا۔ 

سندھ کی مقبول قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ (جسقم ) سے علیحدگی اختیار کرکے 2007 میں اپنی جماعت، جئے سندھ قومی محاذ (آریسرگروپ ) بنانے والے عبدالواحد آریسر چوبیس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے اور وہ جدید سندھی قوم پرستوں کے بانی جی ایم سید کے بعد سندھ کی قوم پرست تحریکوں میں دوسرے بڑے سرکردہ رہنما سمجھے جاتے تھے۔ ان کی وفات 2015 میں ہوئی۔

کالعدم قرار دی جانے والی سندھی قوم پرست جماعت، جئے سندھ قومی محاذ یعنی جسقم ( آریسر گروپ) کے چیئرمین اسلم خیرپوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'اچانک ریاست پاکستان کی جانب سے ہماری پارٹی کو کالعدم قرار دینا سمجھ سے باہر ہے۔ ہم اپنے رہبر سائیں جی ایم سید کے عدم تشدد والے نظریے کے حامی ہیں اور ہم نے بار بار پریس کانفرنس کرکے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم تشدد والی سیاست میں یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی تشدد کرنے والی قوم پرست پارٹیوں کی حمایت کرتے ہیں۔'

’گذشتہ سال سے ہم نے سنجیدہ اور پُرامن سیاست کا آغاز کیا تھا جس کے تحت ہم نے کئی شہروں میں پُرامن احتجاج کیا تھا، شاید وہ ریاست کو بُرا لگا۔ دوسرا یہ کہ کچھ دن پہلے ہم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہمارے رہنما عبدالواحد آریسر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک ہیش ٹیگ شروع کیا تھا جس میں انھیں دو لاکھ تیس ہزار سے زائد ٹوئیٹس کے ذریعے خراج پیش کیا گیا، شاید ریاست اس سے خوفزدہ ہوگئی۔'

 دوسری جانب جسقم آریسر گروپ کو کالعدم کرنے کے خلاف سندھ کے سماجی اور سیاسی کارکنان سوشل میڈیا پر مخالفت کرہے ہیں۔

 سینٹر فار پیس اینڈ سوسائٹی کے ڈائریکٹر اور سندھی زبان کے ادیب جامی چانڈیونے جئے سندھ قومی محاذ (آریسر گروپ) کو ریاست کی جانب سے کالعدم قرار دینے کی مذمت کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ' حکومت کی جانب سے  کالعدم کی جانے والی فہرست میں اکثریت مذہبی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی ہے جن کی پُرتشدد کارروائیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ انھیں کالعدم کرنا تو ٹھیک ہے مگر جسقم آریسر جیسی سیاسی جماعت جو پُرامن ہے اسے کالعدم کرنا عجیب اور غلط ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔'

جی ایم سید اور سندھو دیش کا نعرہ

 سیاست، مذہب، صوفی ازم، سندھی قوم پرستی اور ثقافت کے موضوعات پرساٹھ کتابیں لکھنے والے ادیب اور مقبول سندھی قوم پرست رہنما غلام مرتضی سید المعروف جی ایم سید نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے تین مارچ 1943 کو اس وقت کی برطانیہ سرکار کی سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کے لیے قرارداد پاکستان پیش کی اور بھاری اکثریت سے پاس کرایا۔ انھیں کی کاوشوں کی بدولت سندھ صوبے نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔

بعد میں قراداد پاکستان کے تحت سندھ کو خودمُختاری نہ ملنے، سندھی زبان کو نظرانداز کیے جانے، ون یونٹ کے نفاذ، ہندوستان سے آنے والوں کو بڑے پیمانے پر سندھ میں آباد کرنے اور سندھ کو اپنے حصے کے حقوق نہ ملنے کے موقف پر وہ ریاست مخالف کہلائے۔

1971 میں جب بنگالی رہنما اور جی ایم سید کے دوست مجیب الرحمان نے بنگلادیش کا نعرہ لگایا تو جی ایم سید نے سندھودیش کا نعرہ لگایا۔ ان کے اس موقف کے باعث انھیں تین دہائیوں سے زائد عرصہ نظر بندی میں گزارنا پڑا۔

ان کی زندگی میں ہی ان کی پارٹی جئے سندھ قومی محاذ (جسقم) کے کئی سرکردہ رہنماؤں نے علیحدہ ہوکر اپنی جماعتیں بنالیں۔

25 اپریل 1995 میں ان کے وفات کے بعد ان کی پارٹی کئی ٹکروں میں بٹ گئی۔

نئی قوم پرست جماعتوں کا بننا

جی ایم سید کی پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے ان کے نظریے، جھنڈے، نعرے اور ترانے کے ساتھ اپنی نئی جماعتیں بنا لیں جن میں جئے سندھ قومی محاذ (جسقم بشیر خان گروپ)، جئے سندھ قومی محاذ (جسقم آریسر گروپ)، جئے سندھ قوم پرست پارٹی (قمر بھٹی گروپ)، جئے سندھ محاذ (رسول بخش تھیبو گروپ)، جئے سندھ محاذ (صوفی حضور بخش گروپ)، جئے سندھ محاذ (عبدالخالق جونیجو گروپ)، جئے سندھ محاذ (ریاض چانڈیو گروپ)، جئے سندھ تحریک (ڈاکٹر صفدر سرکی گروپ)، جئے سندھ تحریک (شفیع کرنانی گروپ) اور جئے سندھ متحدہ محاذ (شفیع بُرفت گروپ) شامل تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جئے سندھ تحریک سے علیحدہ ہونے والی جماعتوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک جو خود کو عدم تشدد کی ہامی سجھتی ہیں اور عسکریت پسندی اور مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتیں دوسری وہ جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں جیسے شفیع بُرفت کی سربراہی میں بنی ہوئی جئے سندھ تحریک۔

جی ایم سید کے نظرئیے کے تحت چلنے والی ساری جماعتیں علیحدگی پسند ہیں، پارلیمانی سیاست پر یقین نہیں رکھتیں اور کبھی بھی کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیتیں۔

سندھی قوم پرست جماعتوں میں کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جو علیحدگی میں یقین نہیں رکھتیں اور وہ پاکستان میں  رہتے ہوئے خوشحال سندھ کی بات کرتی ہیں۔ یہ جماعتیں پارلیمانی سیاست میں یقین بھی رکھتی ہیں اور الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ ان میں معروف سندھی سیاستدان رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک، ان کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، ڈاکٹر قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی اور جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی شامل ہیں۔

پرتشدد سیاست کا عنصر

جی ایم سید کی جانب سے سندھ کی پاکستان سے علیحدگی کی تحریک تو 1970 کے اوائل سے شروع کی گئی مگر اس میں پرتشدد اور مزاحمتی پہلو 2000 سے شامل ہوا جب اسی سال نومبر میں شفیع بُرفت نے جئے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید کے سب ہی نظریاتی نکات کے ساتھ جئے سندھ متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی اور اعلان کیا کہ یہ نئی جماعت ایک عسکریت پسند جماعت ہوگی اور سندھودیش کے قیام کے لیے مسلح مزاحمت کرے گی۔

 کچھ عرصے بعد جب بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچ لبریشن آرمی کے چرچے ہونے لگے تو سندھ کے مختلف شہروں بشمول حیدرآباد، کوٹری اور دیگر شہروں میں ریلوے ٹریک پر بم دھماکے ہونے لگے، اور جامشورو اور دادو میں میں بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائن کو اڑایا جانے لگا،  جس کی ذمہ داری سندھ لبریشن آرمی نامی تنظیم نے قبول کرنا شروع کی جس کے سربراہ شفیع برفت تھے۔

شفیع برفت کون تھے

 چھبیس فروری 2012 کو کراچی کے بن قاسم سمیت سکھر، حیدرآباد اور جامشورو سمیت کئی شہروں میں ریلوے کی پٹریوں پر بیک وقت 14 بم دھاکے ہوئے، جس سے ٹرین سروس کئی گھنٹوں تک معطل ہوگئی۔ ان دھماکوں میں ایک سو گرام دھماکے دار مواد استعمال کیا گیا تھا۔ بعد میں سندھو دیش لبریشن آرمی کے کمانڈر شفیع برفت نے ان دھماکوں کی ذمے داری قبول کی۔

اس کے علاوہ 2012 میں کئی شہروں میں نیشنل بینک کی برانچوں اور اے ٹی ایم کو نشانہ بنایا جس کے ذمے داری ایک غیر معروف گروپ سندھو دیش ریولوشنری آرمی کے دریاہ خان نامی سربراہ نے قبول کی۔ مقامی اخبارات کے مطابق دریاہ خان اصل میں شفیع بُرفت کا دوسرا نام ہے۔

 2013 میں سندھ پولیس کے کرائم انویسٹیگیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی اے) اور فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (آیف آئی اے) نے شفیع بُرفت کا نام، ان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے باعث ریڈ بُک میں شامل کیا۔

شفیع بُرفت خود ساختہ جلاوطنی کے بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ ان کے ویریفائیڈ ٹوئٹر اکائونٹ میں دعوی کیا جارہا ہے کہ وہ اس وقت جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں مقیم ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست