2012 کے دہلی گینگ ریپ پر نیٹ فلکس سیریز

’دہلی کرائم‘ کے نام سے سات حصوں پر مشتمل یہ سیریز جمعے سے نیٹ فلکس پر پوری دنیا میں ریلیز ہوگی، جس کے مصنف اور ہدایتکار رچی مہتا ہیں۔

اس سیریز میں شیفالی شاہ نے مرکزی پولیس تفتیش کار کا کردار ادا کیا ہے ۔ تصویر: اسکرین گریب

ممبئی: فلمساز رچی مہتا نے 2012 میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے گینگ ریپ کے نتیجے میں ایک طالبہ کی ہلاکت کے واقعے پر نیٹ فلکس سیریز بنائی ہے۔

23 سالہ فزیو تھراپی کی طالبہ جیوتی سنگھ کو دسمبر 2012 میں نئی دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں پانچ مردوں اور ایک نوعمر لڑکے نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، جو بعدازاں کئی دن تک ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گئی تھیں۔

اس واقعے پر بھارت سمیت عالمی میڈیا پر بھی کافی لے دے ہوئی اور کئی ہفتوں کے احتجاج کا نتیجہ بھارت میں ریپ کے جرائم پر سزائے موت کی صورت میں نکلا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فلمساز رچی مہتا نے بتایا، ’ابتدا میں، میں اس آئیڈیا کے خلاف تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ کام نامناسب ہے۔‘

’تاہم جب میں نے عدالتی فیصلہ پڑھا اور اس کیس کی تحقیقات سے منسلک کچھ افسران سے ملاقات کی، تو میں حیران رہ گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ ملزمان کون تھے اور انہیں کیسے تلاش کیا گیا۔‘

مہتا کے مطابق، ’مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ان افراد کی تلاش کا جائزہ بھی اس بات کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کیوں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔‘

’دہلی کرائم‘ کے نام سے سات حصوں پر مشتمل یہ سیریز جمعے سے نیٹ فلکس پر پوری دنیا میں ریلیز ہوگی۔ اس سیریز کے مصنف اور ہدایتکار رچی مہتا ہیں، جس میں پولیس کی تفتیش کے طریقہ کار اور واقعے میں ملوث چھ افراد کی تلاش کے مناظر فلمائے گئے ہیں۔

اس سیریز میں شیفالی شاہ نے مرکزی پولیس تفتیش کار کا کردار ادا کیا ہے جبکہ اداکار عادل حسین اور ڈینزل اسمتھ بھی اہم کرداروں میں نظر آئیں گے۔

دہلی گینگ ریپ میں ملوث چار افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ ایک ملزم نے دوران قید پراسرار انداز میں خودکشی کرلی تھی جبکہ واقعے میں ملوث نوعمر لڑکے کو بچوں کی جیل میں تین سال تک قید رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

مہتا نے بتایا کہ واقعے کے وقت دہلی میں تعینات پولیس کمشنر نیرج کمار نے انہیں پہلی مرتبہ تجویز دی کہ اس کیس میں ہونے والی پولیس تحقیقات پر ایک نہایت پراثر فلم بنائی جاسکتی ہے۔

اُس وقت مہتا نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا، لیکن بعدازاں انہوں نے اپنا ذہن بدلا اور اس کیس سے منسلک پولیس افسران کے انٹرویوز میں چار سال کا عرصہ لگایا۔

مہتا کے مطابق، ’جب یہ واقعہ ہوا تو اُس وقت پولیس کے خلاف عوام میں بہت غم و غصہ پایا جاتا تھا، لیکن جب میں نے ان کا نقطہ نظر جانا تو مجھے احساس ہوا کہ پولیس اپنی پوری کوشش کر رہی تھی۔‘

انہوں نے بتایا، ’جیسا کہ ہم نے شو کا آغاز کچھ اس طرح سے کیا ہے: دہلی میں سالانہ 11 ہزار جرائم رپورٹ ہوتے ہیں، جن کی روک تھام تقریباً ناممکن ہے کیونکہ آدھی سے زیادہ پولیس فورس ٹریفک ڈیوٹی اور وی آئی پیز کی حفاظت میں مصروف ہوتی ہے۔‘

بھارت میں 2016 کے دوران ریپ کے تقریباً 40 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے، تاہم سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ بہت سے متاثرین واقعات کی رپورٹ درج ہی نہیں کرواتے۔

پہلے پہل سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے طالبہ جیوتی سنگھ کو ہی اپنے قتل کی وجہ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انہوں نے ملزمان کو اُکسایا، حتیٰ کہ ایک ملزم نے مقتولہ کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ رات گئے باہر نکلنے والی خواتین مردوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی حکام نے اسی واقعے پر 2015 میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی بی کے فلمساز لیزلی ادون کی بنائی گئی ایک دستاویزی فلم کو اس وجہ سے نمائش کی اجازت نہیں دی تھی کہ اس واقعے کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

تاہم رچی مہتا کا کہنا ہے کہ انہوں نے مقتولہ کے اہلخانہ سے ملاقات کرکے انہیں یہ یقین دلایا ہے کہ ان کی بیٹی کی المناک موت کو کسی ڈرامے کی صورت میں پیش نہیں کیا جائے گا، تاہم جیوتی کے والد بدری ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ اس سیریز سے ان کے پرانے زخم ہرے ہوجائیں گے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’ہم یہ سیریز نہیں دیکھیں گے، کیونکہ یہ بہت تکلیف دہ ہوگا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’ہم یہ بات نہیں بھول سکتے کہ ہماری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا لیکن ہم دوبارہ سے اس خوفناک واقعے کو نہیں دیکھ سکتے۔ یہ درد میرے خاندان کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔‘

 ’دہلی کرائم‘ کو ہندی اور انگریزی میں فلمایا گیا ہے، جس کا پریمیئر اس سال سنڈینس میں ہونے والے فلم فیسٹیول میں بھی دکھایا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن