کرائسٹ چرچ حملہ: بنگلہ دیشی برادری ’ماں‘ کے چلے جانے پر افسردہ

حسنہ نے نیوزی لینڈ میں بنگلہ دیش سے آئے لوگوں کی بے پناہ خدمت کی اور آخری دم تک کرتی رہیں۔

روئٹرز فوٹو

کرائسٹ چرچ: حسنہ احمد 19 سال کی عمر میں شادی والے دن بنگلہ دیش سے نیوزی لینڈ آئی تھیں۔

یہاں فرید ایئر پورٹ پر ان کے منتظر تھے جن سے کچھ گھنٹوں بعد حسنہ کی شادی طے تھی۔

تقریبا 25 سال بعد فرید کی زندگی میں اس وقت بھونچال آ گیا جب ایک مسلح دہشت گرد نماز جمعہ کے موقع پر النور مسجد میں داخل ہوا اور اندھا دھند فائرنگ کر دی۔

فائرنگ کے بعد جب دہشت گرد مسجد سے باہر نکلا تو اس کا حسنہ سے آمنا سامنا ہو گیا۔

دہشت گرد نے انہیں فٹ پاتھ پر پہلے ایک گولی ماری اور ان کے زمین پر گرنے کے بعد مزید دو گولیاں ماریں جس کی وجہ سے حسنہ موقع پر ہلاک ہو گئیں۔

ویل چیئر پر فرید، جو ایک دوست سے گفتگو کی وجہ سے باجماعت نماز میں دیر سے شریک ہوئے تھے، فائرنگ شروع ہونے پر مسجد سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

فائرنگ کے بعد جب فرید واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے کئی دوست ہلاک ہو چکے ہیں، اس موقع پر وہ زخمی نمازیوں کی مدد میں مصروف ہو گئے۔

فرید کو حسنہ کی ہلاکت کا اس وقت پتہ چلا جب ایک جاننے والے پولیس اہلکار نے مسجد کے باہر انہیں ٹیلی فون کیا۔

پولیس اہلکار نے فرید کو فون پر کہا ’میں نہیں چاہتا کہ آپ پوری رات انتظار کریں۔ فرید آپ گھر چلے جائیں، حسنہ اب واپس نہیں آئیں گی‘۔

فرید نے روئٹرز کو بتایا ’جب میں نے یہ سنا تو میں سُن ہو گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو ضرور تھے لیکن میں نے ہوش نہیں کھوئے‘۔

کرائسٹ چرچ حملے میں کُل 50 افراد ہلاک اور تقریبا اتنے ہی زخمی ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فائرنگ کا نشانہ بننے والوں میں سے اکثر کا تعلق پاکستان، بھارت، ملائشیا، شام، ترکی، صومالیہ اور افغانستان سے تھا۔

نیوزی لینڈ میں تعینات بنگلہ دیش کے سرکاری اہل کار شفیق الرحمان بھویان نے بتایا  کہ حسنہ حملے میں مارے جانے والے پانچ بنگلہ دیشیوں میں سے ایک تھیں۔

شفیق نے روئٹرز کو مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ  نیوزی لینڈ جنت کا ایک ٹکڑا ہے، واقعہ کے بعد سبھی صدمے میں ہیں اور انہیں نارمل ہونے میں وقت لگے گا۔

کرائسٹ چرچ میں ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے موجود بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی حملے میں بال بال بچ گئے۔

حملے نے پورے نیوزی لینڈ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وزیر اعظم جسنڈہ آرڈرن نے اسلحہ قانون میں فوری اصلاحات کا عندیہ دیا ہے۔

عینی شاہدین نے فرید کو بتایا حسنہ جان بچانے کے بجائے مسجد میں موجود خواتین اور بچوں کی مدد کرتی رہیں اور حملہ آور کو دیکھنے کے لیے مسجد کے باہر آئی تھیں۔

’وہ ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دینے والی خاتون تھیں اور انہوں نے دوسروں کو بچانے کے لیے جان دینے سے بھی گریز نہیں کیا‘۔

فرید کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کے قاتل کو معاف کر دیا ہے۔’میں حملہ آور اور اس کے ہم خیال ساتھیوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ میں آپ سے اب بھی پیار کرتا ہوں۔‘

’میں آپ کو گلے لگانا چاہتا ہوں اور حملہ آور کے منہ پر کہنا چاہتا ہوں کہ میں جو کہہ رہا ہوں دل سے کہہ رہا ہوں۔ میں نے کبھی آپ سے نفرت نہیں کی اور نہ آئندہ کروں گا‘۔

ماں جیسی حسنہ

قتل عام کے کچھ گھنٹوں بعد کرائسٹ چرچ کے خاموش نواح میں فرید کے گھر پر دوستوں اور بچ جانے والوں کا رش ہے۔ یہ سب ماں کی طرح سمجھی جانے والی حسنہ کی موت پر افسوس کے لیے موجود ہیں۔

حسنہ 12 اکتوبر، 1974 کو سہلٹ میں پیدا ہوئیں۔ فرید بتاتے ہیں وہ بچپن میں اتنا تیز دوڑتی تھیں کہ شاہ ظلال جونئیر ہائی سکول نے دوسرے بچوں کو جیتنے کا موقع دینے کی خاطر حسنہ کو صرف تین ریسوں میں حصہ لینے دیا۔

وہ 1994 میں نیوزی لینڈ منتقل ہوئیں۔ دبلی پتلی اور پریشان حسنہ آکلینڈ ایئرپورٹ پر اپنے منتظر فرید کو دیکھ کر رو پڑیں۔

ہونے والے شوہر فرید انہیں نیلسن شہر واپسی تک پورے راستے تسلی دیتے رہے۔نیلسن جیسے چھوٹے شہر میں بنگلہ دیشی نہ ہونے کے برابر تھے۔ ایسے میں حسنہ نے محض چھ مہینوں میں انگریزی سیکھ کر مقامی دوست بنائے۔

شادی کے چار سال بعد جب فرید گھر کے بار ایک کار حادثے میں جزوی اپاہج ہو گئے تو حسنہ ان کے ساتھ کرائسٹ چرچ چلی گئیں اور ان کی بہت خدمت کرتی رہیں۔

فرید کہتے ہیں: ہمارا مشغلہ ایک دوسرے سے باتیں کرنا تھا اور ہم کبھی بور نہیں ہوئے۔

زلزلے کے بعد کرائسٹ چرچ کی بحالی

2011 میں ہولناک زلزلے کے نتیجے میں کرائسٹ چرچ تباہ ہو گیا تھا۔ ایسے میں حسنہ نے شہر کی بحالی کے لیے آئے بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی انجینئرز اور مزدوروں وغیرہ کو آباد کرنے میں بھرپور مدد کی۔

چھتیس سالہ فاروق بھی اُن دنوں نئے نئے نیوزی لینڈ آئے تھے۔ وہ سنگاپور میں بطور ویلڈر کام کرتے تھے لیکن بہتر ملازمت کا موقع اور مستقل رہائش جیسی پیشکش کو دیکھتے ہوئے وہ نیوزی لینڈ چلے آئے۔

فاروق، جن کی 19 سالہ بیوی سنجیدہ زمان بنگلہ دیش میں حاملہ ہیں، النور مسجد کے حملے میں ہلاک ہو گئے۔

سنجیدہ کہتی ہیں: میرے شوہر نے ہمارے بچے کے لیے بہت سے خواب دیکھ رکھے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم کچھ سالوں میں ان کے پاس نیوزی لینڈ چلے جائیں اور بچے کو وہیں تعلیم دلوائی جائے۔

’اب میرے بچے کا کیا ہو گا؟کون اس کا خیال رکھے گا میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں‘۔

فاروق کے باس راب وانپیر نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ جمعے ٹیم کو کام ختم کرنے پر جلدی جانے کی اجازت دے دی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ فاروق مسجد جا سکتے ہیں۔

وانپیر کے مطابق فاروق عمدہ ویلڈنگ کرنے، دوستانہ شخصیت رکھنےاور تیز کام کرنے کی وجہ سے ہر دل عزیز تھے۔

ایک اور انجینئرنگ فرم میں کام کرنے والے ذکریا بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کی 27 سالہ بیوی رنا اختر اپنے شوہر کی لاش نیوزی لینڈ سے وطن واپس لانے کے غرض سے بدھ کو ڈھاکا ایئرپورٹ پر موجود تھیں۔

رنا نے بتایا کہ وہ مارچ کے آخر میں ویزہ ملنے پر نیوزی لینڈ جانے والی تھیں۔’ہم بہت خوش تھے اور میرے شوہر کہتے تھے کہ وہ مجھے پورا ملک گھمانے کے لیے بے تاب ہیں‘۔

’میرے سارے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ کسی کا پیارا اس طرح جدا نہ ہو‘۔

مزمل حق بنگلہ دیش میں دندان ساز تھے اور مزید پڑھائی کے لیے ان دنوں نیوزی لینڈ میں تھے جب وہ بھی فائرنگ میں ہلاک ہو گئے۔

فاروق کے ساتھ فلیٹ میں رہنے والے اور ویلڈر مجیب الرحمان نے بتایا کہ یہ تینوں حسنہ کو جانتے تھے۔

’یہ مشکل وقت ہے کیونکہ ہم یہاں ایک چھوٹی سی برادری ہیں اور سبھی ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ہم ہر چیز ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں‘۔

مجیب کہتے ہیں: اب مجھے نہیں پتہ کہ ہم کس طرح نارمل ہو سکیں گے۔

حملے میں ہلاک ہونے والے پانچویں بنگلہ دیشی 66 سالہ بنگلہ دیش زرعی یونیورسٹی کے سابق فیکلٹی رکن عبدالصمد ہیں، جو ان دنوں کرائسٹ چرچ کی لنکن یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔

کئی نوجوان اپنے خاندان کے ہمراہ کرائسٹ چرچ آئے تھے ۔ حسنہ نے ان خاندانوں کی دیکھ بھال اپنے سر لی اور کئی حاملہ خواتین کی مدد کی۔

ایک اور ویلڈر جہانگیر نے کہا: ہم حسنہ کو ماں کی طرح سمجھتے تھے۔۔۔۔۔ اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو ہم حسنہ کے پاس چلے جاتے۔

جہانگیر نے بتایا کہ حسنہ نے حمل کے دوران ان کی بیوی کی بہت مدد کی اور زچگی کے دوران ہسپتال ہی رہیں۔

حسنہ فوت ہو جانے والی مسلمان خواتین کے غسل کے فرائض بھی سر انجام دیتی تھیں۔

حسنہ کو سپرد خاک کرنے کے بعد فرید کہتے ہیں کہ وہ اپنی 15 سالہ بیٹی کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ حسنہ کی برادری کی خدمت کے مشن  کو آگے لے کر چلیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا