حکومت پاکستان نے چینی سکینڈل کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد کارروائی کے لیے معاملہ نیب سمیت متعلقہ اداروں کو سونپ تو دیا، لیکن اس کارروائی سے عوام کو ریلیف ملنے کا امکان دکھائی نہیں دیتا کیونکہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ چینی سکینڈل کی رپورٹ سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے اور وہ مہنگا گنا خرید کر سستی چینی کیسے فروخت کرسکتے ہیں۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے مانگ کم ہوئی ورنہ اب تک فی کلو چینی 85 روپے کی بجائے 100 روپے تک فروخت ہوتی۔ دوسری جانب حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ چینی سکینڈل کی تحقیقات کے ساتھ قیمتیں ریگولیٹ کر کے شوگر ملز بھی کاٹن ایریا سے دوسرے شہروں میں منتقل کی جائیں گی۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق چینی سکینڈل کی رپورٹ صرف جہانگیر ترین اور سیاسی مخالفین کو دباؤ میں لانے کے لیے تھی اور اس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔
چینی کی قیمتوں کا تعین اور شوگر ملز مالکان کے خدشات
آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات چوہدری وحید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں چینی سکینڈل کی رپورٹ کو 'فراڈ' قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اس میں کوئی حقیقت نہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ اگر سابقہ دور حکومت میں چینی برآمد کرنے کی اجازت اور سبسڈی دی جاتی تو قیمتیں اتنی زیادہ نہ ہوتیں بلکہ 60 روپے کلو تک ہوتیں کیونکہ دو سال پہلے تک چینی کی برآمد نہ ہونے اور سبسڈی نہ ملنے پر شوگر ملوں نے چینی سستی فروخت کی اور سٹاک بھی موجود رہے، جبکہ ملکی طلب کم تھی۔ یوں گنے کی ادائیگیاں بھی نہ ہوسکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چوہدری وحید کے مطابق: ’جب حکومت نے گنے کی قیمت 160 سے بڑھا کر 190 روپے مقرر کی تو اسی دوران گنے کی کاشت کم ہوئی لہذا شوگر ملز کو 240 روپے فی من گنا خریدنا پڑا۔ اس وقت بجلی اور لیبر کے اخرجات کو مد نظر رکھا جائے تو ابھی بھی قیمت کم ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: 'ویسے بھی چینی کی قیمت کا تعین مارکیٹ کرتی ہے۔ جتنی طلب زیادہ اور رسد کم ہوگی اتنی قیمت بڑھے گی۔ان دنوں کرونا کی وجہ سے چینی کی مانگ کم ہے تو شوگر ملز 75 سے77 روپے کلو میں ڈیلرز کو چینی فروخت کر رہی ہیں، جبکہ لاگت زیادہ ہونے کے باعث یہ قیمتیں نقصان دے رہی ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ چینی سکینڈل رپورٹ میں ان ہاؤس بجلی پیدا کرنے والی ملوں کی بجلی استعمال سے بچت کو بھی ان کا منافع شمار کیا گیا ہے جبکہ سبسڈی بھی ضرورت کے مطابق دی گئی تھی۔
کیا چینی سکینڈل سے عوام کو ریلیف ملے گا؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی فخر امام سے رابطہ کیا گیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ چینی کا معاملہ ان سے متعلقہ نہیں بلکہ اس حوالے سے انڈسٹری کے حکام سے پوچھا جائے کیونکہ وہی اسے ڈیل کر رہے ہیں۔
دوسری ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت پنجاب وفاقی حکومت کی ہدایت پر عمل کرے گی اور جو کام پنجاب حکومت کے ذمے ہیں ان کے حوالے سے منصوبہ بندی جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'ایک تو شوگر مافیا کو من مانی قیمتوں کے تعین سے روکا جائے گا اور حکومت پنجاب خود چینی کی قیمتوں کا تعین کرے گی۔ دوسرا یہ کہ سابقہ ادوار میں کاٹن ایریاز میں شوگر ملز لگانے کی اجازت سے کاٹن کی صنعت تباہ ہوگئی، لہذا حکومت پنجاب ایسی شوگر ملز کو جو کاٹن ایریا میں لگائی گئیں، وہاں سے متعلقہ علاقوں میں منتقل کرنے کی پالیسی تیار کر رہی ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'اگر چینی سکینڈل کے ثمرات عوام تک نہ پہنچے تو تحقیقات یا کارروائی کا کیا فائدہ ہوگا۔ یہ معاملہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی وزرا کی جانب سے اٹھایا گیا کہ عوام کو تحقیقات کا نہیں بلکہ قیمتوں میں کمی کا انتظار ہے۔ اس معاملے کو سنجیدہ لیا جارہا ہے اور جلد ہی موثرحکمت عملی کے ذریعے عوام کو سستی چینی فراہم کریں گے۔‘
چینی سکینڈل سے عوام کو کیا فائدہ؟
سینیئر صحافی ندیم رضا کے مطابق جس طرح وزرا آئے روز کئی پریس کانفرنسوں میں بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں عوام کو فوائد پہنچانے میں سستی دکھائی دیتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’چینی سکینڈل کی رپورٹ سے ثابت ہوچکا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں بلا وجہ 25 سے 40 روپے تک اضافہ کیا گیا۔ تحقیقات کے ساتھ ہی فوری چینی سستی کرنے کا اعلان بھی ہونا چاہیے تھا، لیکن لگتا یوں ہے جیسے حکمران بھی صرف احتساب کے نام پر سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 'عوام تب خوش ہوگی جب ان کا منہ سستی چینی سے میٹھا ہوگا اور پیٹ بھرے گا۔ پکڑ دھکڑ سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بہتر کارکردگی سے ہی لوگوں کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔'
ندیم رضا کا کہنا تھا کہ 'چینی سکینڈل کے معاملے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے یہ صرف وقت گزارنے کا طریقہ ہے۔ پہلے ایک رپورٹ پھر دوسری رپورٹ اور اب اداروں کو معاملہ دے دیا گیا ہے۔'