ایسا گاؤں جس کے بازار میں سے کوئی سائیکل پر نہیں گزر سکتا

خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک کے گاؤں کوٹ خدک کے مرکزی بازار میں یہ پابندی گذشتہ 30 سالوں سے عائد ہے۔

علاقہ مکینوں کے  مطابق  گاؤں کے جرگے نے فیصلہ کیا کہ بازار میں سائیکل پر سوار ہو کر کوئی بھی شخص نہیں گزرے گا (فائل تصویر: بشکریہ ورلڈ  بائیکنگ انفو)

'یہ 03-2002 کی بات ہے، میں گاؤں کے بازار سے سائیکل پر سوار ہو کر گزر رہا تھا تو مجھے وہاں روکا گیا اور سائیکل سے اتر کر بازار کو کراس کرنے کا کہا گیا۔ اس بازار میں سائیکل پر سوار ہو کر گزرنے پر کئی دہائیوں سے پابندی ہے۔'

خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک کے گاؤں کوٹ خدک کے رہائشی 27 سالہ عرفان میانی علاقے کے بازار میں سے سائیکل پر سوار ہو کر گزرنے پر پابندی کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کر رہے تھے۔

عرفان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس گاؤں میں گذشتہ 30 سالوں سے یہ پابندی عائد ہے کہ گاؤں کے مرکزی بازار میں سے، جو تقریباً ایک کلومیٹر پر محیط ہے، سائیکل پر سوار ہو کر گزرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا: 'یہ فیصلہ 90 کی دہائی میں اس وقت کیا گیا تھا، جب ایک نوجوان نے بازار میں سے گزرنے والی گاؤں کی ایک بچی کو سائیکل سے ٹکر مار کر زخمی کیا تھا۔ اس وقت گاؤں کے ایک جرگے نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بھی شخص سائیکل پر سوار ہو کر بازار سے نہیں گزرے گا۔'

عرفان نے بتایا کہ فیصلے میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر کس نے بھی سائیکل پر سوار ہو کر بازار کو کراس کیا تو ان کی پٹائی کی جائے گی۔ یہ روایت آج بھی برقرار ہے کہ جب بھی کوئی اس بازار سے گزرنے لگتا ہے تو سائیکل سے اترتا ہے اور اس کا ہینڈل پکڑ کر سائیکل کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چلاتا ہوا بازار کی حدود پار کرتا ہے۔

علاقے میں سائیکل سواری کے رواج سے متعلق سوال کے جواب میں عرفان نے بتایا کہ بہت عرصہ پہلے اس علاقے میں سائیکل چلانے کا رواج بہت عام تھا تاہم اب سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی ہے اور گاڑیوں کا استعمال بھی زیادہ ہوگیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد الطاف کہتے ہیں کہ یہ پابندی بڑوں کے ادب کو ملحوظ خاطر رکھ کر لگائی گئی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس بازار میں گاؤں کے بزرگ آکر بیٹھتے تھے تو دیگر علاقوں سے اکثر لوگ سائیکلوں کو بازار میں تیزی سے چلاتے تھے جو بڑوں کی ایک قسم کی توہین سمجھی جاتی تھی۔

الطاف نے بتایا: 'یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے جرگے نے فیصلہ کیا کہ بازار میں سائیکل پر سوار ہو کر کوئی بھی شخص نہیں گزرے گا۔'

یہ بازار تقریباً 30 دکانوں پر مشتمل ہے اور جگہ جگہ پر تین چار دکانیں ایک ساتھ بنائی گئی ہیں۔

الطاف کے مطابق: عموماً ایسا ہوتا ہے کہ سائیکل سوار گاؤں میں داخل ہوتے ہی سائیکل سے اترتا ہے اور جب گاؤں کا احاطہ ختم ہوتا ہے تو وہ واپس سائیکل پر سوار ہو کر چلا جاتا ہے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ گاؤں وادی گومل کی حدود میں آتا ہے جس میں میانی قبیلے کے لوگ آباد ہے اور یہ تقریباً 700 گھرانوں پر مشتمل ہے، جو ضلع ٹانک کے مرکزی بازار سے 27 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

الطاف نے کہا کہ 'اگر کوئی بھی اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے برا مانا جاتا ہے اور سائیکل پر سوار شخص کو روک دیا جاتا ہے کیونکہ یہ فیصلہ گاؤں کے بزرگوں نے کیا تھا اور لوگ آج بھی اس فیصلے کا اخترام کرتے ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان