' جھڑپ سے قبل چین نے مارشل آرٹس فائٹرز کو سرحد پر بھیجا'

چین کے سرکاری فوجی اخبار چائنہ نیشنل ڈیفنس نیوز کے مطابق پانچ نئے ملیشیا ڈویژنز، جن میں ماؤنٹ ایورسٹ ٹارچ ریلے ٹیم کے سابق ارکان اور مکسڈ مارشل آرٹس کلب کے فائٹرز بھی شامل تھے، 15 جون کو تبت میں لاسا کے مقام پر معائنے کے لیے پیش ہوئے تھے۔

بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکار چین کے ساتھ منسلک سرحد پر واقع ایک پوسٹ پر تعینات ہیں (تصویر: اے ایف پی)

چین کے سرکاری اخبار کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں ماہ لداخ کے علاقے وادی گلوان میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جھڑپ سے پہلے ہی بیجنگ نے اپنی بارڈر سکیورٹی فورس کو مضبوط کرنے کے لیے مارشل آرٹس اور پہاڑوں پر چڑھنے کے ماہر فوجی بھیج دیے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے چین کے سرکاری فوجی اخبار چائنہ نیشنل ڈیفنس نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ پانچ نئے ملیشیا ڈویژنز، جن میں ماؤنٹ ایورسٹ ٹارچ ریلے ٹیم کے سابق ارکان اور مکسڈ مارشل آرٹس کلب کے فائٹرز بھی شامل تھے، 15 جون کو لاسا کے مقام پر معائنے کے لیے پیش ہوئے۔

سرکاری سی سی ٹی وی فوٹیج میں تبت کے دارالحکومت میں ان فوجیوں کو قطاریں بناتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اخبار کے مطابق تبت میں چینی فوج کے کمانڈر وانگ ہائی جیانگ کا کہنا تھا کہ ایبنو فائٹ کلب کے فائٹرز چینی فوج کو بہت مضبوط بنائیں گے اور ان کی صلاحیت بہتر کریں گے۔ اس کے ساتھ فوج کے ردعمل دینے اور مدد کی صلاحیت میں بھی بہتری آئے گی۔ تاہم چینی فوج کے کمانڈر نے واضح طور پر تصدیق نہیں کی تھی کہ ان فوجی دستوں کی تعیناتی سرحد پر موجود کشیدگی کے پیش نظر ہے۔

لداخ کے علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں کے بعد رواں ماہ شدید ترین جھڑپ ہوئی تھی، جس میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے جب کہ چین کو ہونے والے جانی نقصان کی تفصیل نامعلوم ہے۔

اس جھڑپ کے بعد ذرائع کے حوالے سے یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ چینی فوج نے بھارتی فوج کی 16 بہار رجمنٹ کے اہلکاروں پر حملہ آور ہونے کے لیے جدید ہتھیاروں کی بجائے لوہے کی سلاخوں اور خاردار تار سے لپٹی لاٹھیوں کا استعمال کیا تھا۔

ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ چینی فوجیوں کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ بعض بھارتی فوجیوں نے ان کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے دریائے گلوان میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعض بھارتی میڈیا رپورٹوں میں بھی ذرائع کے حوالے سے ایسی ہی تفصیلات سامنے آئی تھیں، جن میں کہا گیا تھا کہ چینی فوج نے بظاہر بھارتی فوجیوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ پہلے ہی بنا رکھا تھا کیونکہ انہوں نے جوابی حملے سے بچنے کے لیے تمام حفاظتی اقدامات اٹھائے تھے۔ انہوں نے ہیلمٹ، شیلڈ اور گھٹنوں و کہنیوں کے کور بھی پہن رکھے تھے۔

اور اب چین کے سرکاری اخبار کی مذکورہ رپورٹ میں مارشل آرٹس فائٹرز کے بھیجنے سے ان اطلاعات کی تصدیق ہوتی ہے۔

دوسری جانب بھارت نے جمعرات کو کہا تھا کہ چینی فوج میں اضافے کے بعد اس نے ہمالیہ کے سرحدی علاقے میں اپنی فوج بڑھا دی ہے۔

چین کے سرکاری میڈیا نے بھارت کے ساتھ تبت کے سرحدی علاقے میں فوجی سرگرمیوں میں اضافے کو نمایاں کوریج دی ہے۔ ان سرگرمیوں میں انتہائی بلندی پر طیارہ شکن گنوں کے استعمال کی مشقیں بھی شامل ہیں۔

چائنہ نیشنل ڈیفنس نیوز نے کہا ہے کہ نئے فوجیوں کی بھرتی کا مقصد سرحد کو مضبوط بنانے اور تبت میں استحکام لانا ہے۔

واضح رہے کہ چین اور بھارت ایک معاہدے کے تحت تبت کے علاقے میں ایک دوسرے کے خلاف آتشیں اسلحہ استعمال نہ کرنے کے پابند ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 1962 میں سرحدی تنازع پر ایک جنگ بھی ہوچکی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا