'چمگادڑ کے گھونسلوں' میں 'سرخ پارہ'

سلیم مسیح پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی کمپنی سے کروڑوں روپے نکال کر چمگادڑوں کے گھونسلوں میں سے 'سرخ پارے' کی تلاش پر خرچ کیے، لیکن 'سرخ پارے' کی کہانی اصل میں ہے کیا؟

چمگادڑ گھونسلہ نہیں بناتی  بلکہ غاروں میں ، پرانی عمارتوں کی چھتوں  یا درختوں پر پنجوں کی مدد سے لٹک جاتی ہے۔(تصویر: اے ایف پی)

'سرخ پارے' کے بارے میں شاید بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں گے۔ اس کی تفصیل کی طرف ہم بعد میں آئیں گے لیکن پشاور کے رہائشی سلیم مسیح اسی 'سرخ پارے' کی تلاش میں مصروف تھے، تاہم جس کمپنی میں وہ ملازم تھے، اس نے الزام عائد کیا کہ سلیم نے کمپنی کے کروڑوں روپے نکال کر 'چمگادڑوں کے گھونسلوں' میں سے 'سرخ پارے' کی تلاش پر خرچ کیے ہیں۔

جمعے کے روز اس حوالے سے کیس کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس نعیم انور کی سربراہی میں ہوئی۔

سلیم مسیح کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عدالت نے سلیم کو ضمانت پر رہا کردیا ہے، جو پشاور میں ایک ٹائر کی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔

کاکاخیل نے بتایا کہ ان کے موکل پر ان کی کمپنی کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ 'انہوں نے  کمپنی کے ایک کروڑ سے زائد روپے غیر قانونی طریقے سے نکال کر چمگادڑوں کے گھونسلوں کو تلاش کرنے اور وہاں پر 'سرخ پارہ' ڈھونڈنے پر لگا دیے۔'

انہوں نے بتایا: 'میرے موکل کو بغیر کسی ثبوت کے اس کیس میں پھنسایا گیا تھا۔ سلیم کے پاس سے 12 لاکھ روپے ملے تھے لیکن یہ ان کے اپنے پیسے تھے اور انہوں نے چمگادڑوں کے گھونسلے تلاش کرنے پر اپنے ہی پیسے خرچ کیے تھے۔'

وکیل نے مزید بتایا کہ ان کے موکل نے یہ 'کاروبار' انٹرنیٹ پر ایک اشتہار دیکھنے کے بعد شروع کیا تھا، تاہم بعد میں انہیں پتہ چلا کہ یہ ایک فراڈ تھا۔ 

کیا چمگادڑ گھونسلہ بناتی ہے؟

واضح رہے کہ چمگادڑ پرندہ نہیں بلکہ ممالیہ جانور ہے اور اس کی خصوصیات پرندوں سے بہت مختلف ہیں۔ جہاں پرندے عام طور پر گھونسلہ بنا کر اس میں انڈے دیتے ہیں، چمگادڑ گھونسلہ نہیں بناتی اور غاروں میں یا پرانی عمارتوں کی چھتوں پر پنجوں کی مدد سے لٹک جاتی ہے۔

چمگادڑ انڈے بھی نہیں دیتی بلکہ دوسرے ممالیہ جانوروں کی طرح بچے دیتی ہے اور انہیں دودھ پلاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کے ملٹی ڈسپلنری ڈیجیٹل پبلشنگ انسٹی ٹیوٹ نامی ایک ادارے کی جانب سے 'چمگادڑ کے ذریعے وائرس کے پھیلاؤ ' کے حوالے سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ کچھ جعلی سکیموں کی وجہ سے چمگادڑوں کی آبادی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

اس مقالے کے مطابق: 'ان جعلی سکیموں میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چمگادڑوں کے گھونسلوں میں 'سرخ پارہ' موجود ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ چمگادڑ گھونسلے بناتی ہو یا اس میں 'سرخ پارے' نامی کوئی چیز پیدا ہوتی ہو۔

کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے 'سرخ پارے' کو چمگادڑ کے گھونسلوں کے ساتھ جوڑنے کا فراڈ ایران میں شروع ہوا تھا اور بعد میں یہ اردن، آذربائیجان، ترکی اور عراق تک پہنچ گیا جبکہ آج کل مشرق وسطٰی میں بھی اسی فراڈ سکیم پر یقین کیا جاتا ہے۔

کیا 'سرخ پارہ' نامی کسی چیز کا وجود ہے؟

یہ تو واضح ہوگیا کہ چمگادڑ کے گھونسلے کا کوئی وجود نہیں لیکن پھر یہ سرخ پارہ کیا ہے؟ اس حوالے سے بہت سی تحقیقات میں مختلف باتیں سامنے آئی ہیں تاہم کسی بھی بات کو حتمی نہیں کہا جاسکتا۔

مختلف محققین کے مطابق 'سرخ پارے' کا نام سب سے پہلے 1970 میں استعمال ہونا شروع ہوا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ نیوکلیئر آلات میں استعمال ہونے والی کوئی چیز ہے۔ جس کے بعد مختلف دہائیوں میں یہ 'فراڈ' کی مختلف شکلوں میں پیش ہونا شروع ہوگیا۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ مائع شکل میں ہے تو کھی اس کو پاؤڈر بتایا جاتا۔

'نیو سائنٹسٹ' نامی مستند میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق اس 'فراڈ' پر مختلف تحقیق سامنے آنے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف ادوار میں 'سرخ پارے' نامی اس چیز کو مختلف چیزوں سے جوڑا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس سے ایٹم بم بھی بنایا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ اسے کسی بھی میزائل میں استعمال کرنے سے میزائل درست ٹارگٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے لیکن محققین کے مطابق اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔

مذکورہ میگزین کی اسی رپورٹ میں درج ہے کہ 'سرخ پارے کے بارے میں لوگ اتنے متجسس ہوگئے کہ روس سمیت یورپ کے کچھ ممالک میں اس کی فی کلو قمیت 440 ہزار ڈالر سے لے کر پانچ لاکھ ڈالر تک پنچ گئی تھی۔'

آج بھی اگرآپ یوٹیوب پر جائیں تو آپ کو 'سرخ پارے' کے حوالے سے ہزاروں ویڈیوز اور مختلف اشتہارات دیکھنے کو ملیں گے، جن میں یہی کہا جا رہا ہوتا ہے کہ یہ پارہ اتنے ہزار ڈالر فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔

'نیوکلیئر تھریٹ' نامی امریکی تنظیم نے کیمیائی حملوں کے حوالے سے افواہوں پر ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے۔ اس مقالے میں دیگر افواہوں کے ساتھ ساتھ سرخ پارے کابھی ذکر موجود ہے۔

مقالے کے مطابق: 'سرخ پارہ کئی دہائیوں سے ماہرین کی تحقیق کا موضوع رہا ہے لیکن ابھی تک واضح طور پر یہ سامنے نہیں آیا ہے کہ سرخ پارہ نامی کوئی چیز موجود ہے یا اس کا استعمال کسی کیمیائی مواد میں کیا جاتا ہے۔'

اسی مقاملے میں سرخ پارے کی سمگلنگ کے حوالے سے مختلف واقعات کا بھی ذکر ہے، جس میں مختلف ممالک اور تنظیموں کو اس کے استعمال کے نام پر دھوکہ دیا گیا اور انہوں نے لاکھوں ڈالرز دے کر سرخ پارے کے نام پر کوئی چیز خریدی ہے۔

اس مقالے میں یہ بھی لکھا ہے کہ شمالی کوریا کی ایک یورینیئم فرم نے 1993 میں روس کی ایک فرم سے کئی کلو کی ایک چیز خریدی تھی جسے وہ 'سرخ پارہ' کہتے تھے۔ اسی طرح 1999 میں القاعدہ کے ایک ممبر، جو تکنیکی امور کے ماہر نہیں تھے، کو پکڑا گیا تو انہوں نہیں یہی بتایا تھا کہ وہ سرخ پارے کے مقام کو ڈھونڈ رہے تھے تاکہ اسے خرید سکیں۔

اس تحقیقی مقالے میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ برطانیہ، امریکہ اور روس سمیت مخلتف ممالک کی طرف سے واضح طور سرخ پارے کے بارے میں یہ موقف سامنے آیا ہے کہ اس قسم کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی جس میں یہ صلاحیت ہو، جو ان سکیموں میں بتائی جاتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرخ پارہ  سابق سویت یونین میں کوڈ ورڈ کے طور پر لیتھیئم 6 نامی ایک دھات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو کیمیائی اسلحوں کو چلاتے وقت اس کی صلاحیت کو بہتر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں اس 'سرخ پارے' کی تلاش کے حوالے سے 2009 میں ایک افواہ پھیلی تھی کہ سنگر کمپنی کی بنی سلائی مشین میں سرخ پارے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سعودی گزٹ کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق جب یہ افواہ پھیلی تو لوگوں نے اس سلائی مشین کو خریدنا شروع کردیا او اس وقت کچھ لوگوں نے ایک مشین 50 ہزار ڈالر تک میں بھی خریدی تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اس کو واپس فروخت کرنے سے کروڑوں روپے کمائیں گے۔

اس افواہ کے بعد سعودی حکومت نے تحقیقات شروع کی تھیں تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ افواہیں کس نے پھیلائی تھیں۔ اس وقت یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ کچھ غیر ملکی ان ہی مشینوں کو لاکھوں ڈالرز میں خرید رہے ہیں۔

انٹرنیٹ پر آپ کو ان ہی جعلی سکیموں کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی ویڈیوز ملیں گی، جن میں بتایا جاتا ہے کہ 'سرخ پارہ' نیوکلیئر بم میں استعمال ہوتا ہے جبکہ ایک 'سبز پارہ' ہے جو جنسی تسکین بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ ان سکیموں میں سب سے قیمتی پارے کو 'بلڈ اپ دی سلیوز' کہا جاتا ہے جو جنات کو قابو کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان