کیا پاکستان کسی نئے بلاک کا حصہ بننے جا رہا ہے؟

وزیر خارجہ کو معلوم ہونا چاہیے امور خارجہ کوئے یار یا سوئے دار کا نام نہیں، ان دونوں کے بیچ بھی بہت سے مقامات آہ و فغاں آتے ہیں۔

(اے ایف پی)

وزیر خارجہ کیا کہنا چاہتے تھے؟ کیا وہ خطے میں ایک نئے بلاک اور نئی صف بندی کی خبر دے رہے ہیں اور کیا انہوں نے اس کے امکانات اور مضمرات پر غور فرما لیا ہے؟

کوئی اور ہوتا تو صرف نظر کیا جا سکتا تھا لیکن یہ شاہ محمود قریشی تھے جو امور خارجہ کی نزاکتوں کو خوب جانتے ہیں اور وزارت خارجہ کا قلمدان بھی انہی کے پاس ہے۔ وزیر خارجہ کسی ٹاک شو میں بات کرے یا کسی سفارتی فورم پر، بات کی اہمیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاہ محمود قریشی نے چند ماہ قبل مظفر آبادمیں کھڑے ہو کر بھی کچھ ایسی ہی بات کی تھی کہ ’ہم تو امہ کی بات کرتے ہیں لیکن امہ کے محافظوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ‘

اس دفعہ وہ زیادہ کھل کر بولے ہیں تو اس سے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا خطے میں ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے؟

با دی النظر میں اس کا جواب اثبات میں ہے اور ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ ترکی، ایران، چین اور پاکستان کی صورت میں ایک علاقائی بلاک تشکیل پا رہا ہے۔ ایران سے جس طرح بھارتی امکانات سمٹنا شروع ہو گئے ہیں یہ ایران کی چین سے بڑھتی ہوئی قربت کا ثبوت ہے۔ چین ایران میں بھاری سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔

امکانی منظر نامہ یوں تشکیل پا رہا ہے کہ چین ایران ترکی پاکستان ایک جانب ہوں گے اور بھارت عرب امارات اور سعودی عرب دوسری جانب۔ یہ منظر نامہ کسی بھی عنوان سے تشکیل پائے اس میں امکانات کے ساتھ ساتھ خطرات اور مضمرات بھی ہیں اور رد عمل یا اضطراب کی کسی کیفیت میں ان سے صرف نظر کر لینا نقصان کا باعث ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت میں اتنی بڑی تبدیلی معمولی بات نہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے عشروں کے تعلقات ہیں۔ باہمی تعلقات کی تاریخ جہاں اتنی پرانی ہو وہاں ان تعلقات کی نوعیت کو جوہری طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ ایک ایسی حکومت کا وزیر خارجہ کیسے کر سکتا ہے جو اتحادیوں کی بیساکھی پر کھڑی ہو؟

ایسے معاملات میں جو بھی فیصلہ کیا جائے حکمت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ وہ قومی فیصلہ ہونا چاہیے۔ اتنی بڑی بات کہنے سے پہلے کیا مناسب نہ ہوتا حزب اختلاف کی قیادت کو بھی اعتماد میں لے لیا جاتا؟ کشمیر کاز صرف تحریک انصاف کا تو نہیں یہ قومی کاز ہے اور حزب اختلاف بھی یقیناً قومی مفاد کو نظر انداز نہ کرتی۔ قانون سازی کے معاملے میں حزب اختلاف کے ذمہ دارانہ کردار کی گواہی تو خود وزیر خارجہ دے چکے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اتنے بڑے اور اہم معاملے میں حزب اختلاف کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی؟

شاہ محمود قریشی کچھ اور کہہ رہے ہیں اور مسلم لیگ ن کے احسن اقبال کا ٹویٹ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔ سیاسی قیادت کے اس تضاد نے پاکستان کے موقف کو تقویت پہنچائی ہو گی یا جگ ہنسائی کا باعث بنا ہو گا؟

ہماری داخلی پالیسی ہو یا خارجہ پالیسی، ہم ہر وقت رد عمل میں سوچتے اور رد عمل کی کیفیت میں فیصلہ کرتے ہیں۔ بہت سے ناگزیر فیصلہ رد عمل کی کیفیت کا شکار ہوئے بغیر بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہوتے ہوئے سارک، نیٹو، جی ایٹ، یورپی یونین جیسے متعدد فورم موجود ہیں اور او آئی سی کی موجودگی میں عرب لیگ بھی کام کر رہی ہے تو معمول کے مطابق رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بغیر علاقائی سطح پر کچھ اور ممالک بھی قریب آ سکتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے او آئی سی یا کچھ دوست ممالک کو چناؤتی دینا کیا ضروری تھا؟ آپ اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کو مدعو کر لیتے۔ کشمیر کاز پر سفارتی تحرک آپ کا حق تھا۔ کیا کچھ نہیں اور چناؤتی دے کر تلخی مفت میں پیدا کر لی۔ کیا اسے بصیرت کے باب میں لکھا جائے گا؟

امور خارجہ میں بنیادی اہمیت حساب سودو زیاں کی ہے۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا بحران معیشت کا ہے تو حساب سودو زیاں کا پہلا مرحلہ معاشی ہی ہو گا۔ سوال یہ ہے کیا چین، ایران، ترکی اور ملائیشیا مل کر بھی ہمارے لیے عودی عرب کا متبادل ہو سکتے ہیں؟ سعودی عرب میں 26 لاکھ کے قریب پاکستانی بر سر روزگار ہیں۔ کیا کسی کو احساس ہے 26 لاکھ لوگوں کے روزگار کا مطلب کیا ہے؟ ابھی تو ایک ارب ڈالر مانگے گئے ہیں کل کو سعودی عرب بھارت کے مسلمانوں کو بلا کر یا بنگلہ دیش کو پیش کش کر کے ان کی افرادی قوت منگوا لیتا ہے اور آپ کے سارے نہ سہی آدھے لوگ واپس کر دیتا ہے کیا کسی کو احساس ہے 13 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کے بے روزگار ہو جانے کا مطلب کیا ہو گا؟ کیا ترکی، چین، ملائیشیا اور ایران اتنی تعداد کو اپنے ہاں ملازمت دیں گے؟

کیا ہمیں معلوم ہے کتنے پاکستانی ترکی میں ہیں؟ پانچ سو کے قریب۔ چین میں 15 ہزار، ایران میں 40 ہزار، اور ملائیشیا میں قریبا 60 ہزار۔ یہ ملا کر ایک لاکھ 15 ہزار پانچ سو پاکستانی بنتے ہیں۔ جب کہ اکیلے سعودی میں 26 لاکھ کے قریب پاکستانی بر سر روزگار ہیں۔

اس سوال پر بھی غور کرنا ہو گا کہ سعودی عرب سے ناراض پاکستان کی خود چین کے نزدیک کتنی اہمیت رہ جائے گی؟ چین کے اخبارات میں سی پیک کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا اس میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کے ذریعے چین کو عرب دنیا تک رسائی ملے گی۔ پاکستان کی اہمیت کے حوالوں میں یہ ایک نمایاں حوالہ سمجھا جا رہا ہے۔ خود سعودی عرب کے ساتھ چین کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ کیا وزیر خارجہ نے حساب سود و زیاں کر رکھا ہے کہ سعودی عرب سے تعلقات خراب کر کے چین کی نظر میں ہماری اہمیت کتنی رہ جائے گی؟

امور خارجہ یخ بستگی، گہرائی اور بصیرت کا نام ہے، سطحیت اور جذباتیت کا نہیں۔ مہاتیر محمد کے ساتھ ہم نے جو وعدے کیے اور جن سے ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان میں بھی بصیرت پر جذبات غالب رہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ مہاتیر کے اقتدار کی مدت ختم ہونے والی ہے اور وہ کسی طویل المدت پائیدار خارجہ پالیسی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ لیکن ہم شدت جذبات میں ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ طیب اردوغان کا مسئلہ اور تھا کہ ان کے عربوں سے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے، ہمارا کیا مسئلہ تھا؟

ہماری خارجہ پالیسی کا حسن یہی تھا کہ ہم نے امریکہ یا چین کی بجائے امریکہ اور چین، اور ایران یا سعودی عرب کی بجائے ایران اور سعودی عرب کا اصول اپنائے رکھا۔ اونچ نیچ بھی آتی ہے اور تناؤ بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن وزیر خارجہ کو معلوم ہونا چاہیے امور خارجہ کوئے یار یا سوئے دار کا نام نہیں، ان دونوں کے بیچ بھی بہت سے مقامات آہ و فغاں آتے ہیں۔

تب تک بیٹھ کر یہ طے کر لیجیے کہ کیا ہم امت اور نیشن سٹیٹ کے تصورات میں توازن لانے کو تیار ہیں؟ تھوڑے کہے کو بہت جان سکیں تو عرض کروں کہ اس توازن کو قائم کیے بغیر آپ کوئی ایسا قدم اٹھانا چاہیں بھی تو نہیں اٹھا سکتے۔ ذرا اپنے سماج کی فکری صورت گری پر تو ایک نظر ڈال لیجیے۔

آخری سوال یہ ہے کہ اس سب کی شان نزول کیا واقعی کشمیر ہے یا اس کا تذکرہ برائے وزن بیت فرمایا گیا ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ