اسرائیل، امارات امن معاہدہ: خطے کے لیے مضمرات؟

فلسطینیوں کی مرضی کے خلاف اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سہ فریقی امن معاہدے سے 2002 کا ’عرب امن منصوبہ‘ ختم ہو گیا ہے؟

دبئی میں شائع ہونے والے آج کے اخبارات نے امن معاہدے کو شہہ سرخیوں میں شائع کیا (اے ایف پی)

اسرائیل اور عرب ممالک ان دنوں تعلقات میں گرم جوشی لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پہلا مرحلہ تعلقات کا قیام، پھر ان کو معمول پر رکھنے اور بعد میں گرم جوشی لانے کا ہوتا ہے۔ لیکن خطے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت دیکھ کر لگتا ہے کہ سب سے آخری مرحلہ پہلے طے ہو گیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران تقاریر، بیانات اور کانفرنسوں میں کئے جانے والے اظہار خیال پر معمولی سا غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس حوالے سے خاصے پرجوش تھے۔ ان کی خوشی دیدنی تھی، جو چھپائے نہیں، چھپتی تھی۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

ان کے بیانات میں ایک دعویٰ جھلک رہا تھا۔ وہ دعویٰ اور اقرار نامہ یہ تھا کہ یہ درست ہے کہ ان کی حکومت نظریاتی انتہا پسند ہے، اس حکومت نے غیرمعمولی طور پر مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیوں میں توسیع بھی کی ہے، وہ مقبوضہ عرب علاقوں کو یہودیانے کے عمل کے بھی ذمہ دار ہیں، وہ فلسطینی ریاست کے مجوزہ قیام کے بھی سخت ترین مخالف سہی، ان سب کے باوجود اسرائیل اس خطے میں سفارتی اور سیاسی تنہائی سے دوچار ہے۔

اب عرب ملکوں کے ساتھ تزویراتی تعلق داری کا عمل جاری ہونا چاہیے۔ ان ملکوں سے بھی سفارتی تعلقات کی بات ہونی چاہیے، جن سے ایسا کوئی تعلق کل تک نہیں تھا۔ کیا یہ تعلقات بڑھتے بڑھتے اس نہج پر یک دم آ گئے، ایسا ہر گز نہیں!

تسلیم ورضا کی ٹائم لائن

ان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے زمین ہموار کرنے کی خاطر امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے ایک غیرمعمولی اقدام اٹھاتے ہوئے گذشتہ دنوں اسرائیل کے کثیر الاشاعت اخبار میں ایک کالم لکھا۔ نارملائزیشن کے خلاف فلسطینیوں اور عربوں کے مسلمہ موقف کے برعکس عبرانی روزنامہ ’یدیعوت احرونوت‘ میں شائع ہونے والے اس کالم کو ’انضمام یا نارملائزیشن‘ کا عنوان دیا گیا۔

بظاہر مضمون کا مقصد فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے خلاف اسرائیلی عوام کے ردعمل کو غیر مؤثر کرنا تھا۔ شاید سفیر محترم عتیبہ کو یہ یقین تھا کہ کالم کی اشاعت کے اگلے روز اسرائیلی عوام سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومت کو فلسطینی علاقے ہتھیانے سے باز رہنے کا مطالبہ کر رہے ہوں گے۔ اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا، تو پھر کالم شائع کرانے کا کیا مقصد تھا؟

کالم میں اسرائیلی حکومت کو ’دشمن کی بجائے، موقع’ کہہ کر مخاطب کرنے والے اماراتی سفیر اس بات پر پریشان تھے کہ انضمام کی کارروائی فلسطینی مزاحمت کو ہوا دے گی جس سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں پر عرب ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ اس سے اسرائیل، امریکہ، خلیجی ریاستیں اور دوسرے عرب ملکوں کے ساتھ مل کر تہران کے خلاف ایران مخالف اتحاد بنانے کی ایک مدت سے جاری کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ماضی میں نیشنل سکیورٹی کے فکیلٹی کے طلبہ کی گریجویشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نتن یاہو نے کھلے طور پر کہا تھا کہ ’عرب ممالک یہ راز جان گئے ہیں کہ اسرائیل سے تعاون کرنے میں وہ توانائی موجود ہے جس سے خطے میں اسلامی انتہا پرستی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔‘ یہ کہنے یا بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسلامی انتہا پسندی کے معنی ہر ملک میں مختلف ہیں۔ اسرائیل کے لیے یہ معنی بالکل مختلف ہیں۔

اندریں حالات عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات مضبوط کر کے ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے خطرے سے بچنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف انہیں یقین ہے کہ وہ اس طرح اسلامی انتہا پسندی کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان دو بنیادوں پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا نیا منصوبہ سامنے آیا ہے۔

انہی مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے امریکی سرپرستی میں جمعرات [13 اگست] باہمی تعلقات معمول پر لانے کی خاطر ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ میں ’ایک تاریخی امن معاہدہ‘ کیا۔

فلسطین ۔ ایران ردعمل
امن معاہدے کو فلسطینیوں نے ’اپنی جدوجہد کی پیٹھ میں غداری کا چھرا گھونپنے‘ کی کوشش قراردے کر مسترد کر دیا ہے۔ ایران نے بھی جمعہ کو ایک بیان میں اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان تعلقات ناملائزیشن کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ’تزویراتی حماقت‘ قرار دیا ہے جو بیان کے مطابق تہران نواز ’مزاحمتی محور‘ کی مضبوطی کا باعث بنے گی۔

امن معاہدہ کا مرکزی نقطہ
معاہدے کے تحت اسرائیل، مقبوضہ غرب اردن کے ان علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی کارروائی کو مکمل طور پر ختم نہیں بلکہ فی الوقت ’معطل‘ کر رہا ہے جنہیں یکم جون کو مشتہر کی جانے والی صدی کی ڈیل کے مطابق اسرائیلی ریاست کا حصہ بننا تھا۔

معاہدے کی اطلاع دیتے ہوئے ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید نے بتایا کہ صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے درمیان ٹیلی فون کال میں ’مزید‘ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی کارروائی ’روکنے‘ کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

اس طرح متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن کے بعد، اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والا تیسرا عرب اور پہلا خلیجی ملک بن گیا۔

اس موقع پر جاری کردہ مشترکہ بیان کے مطابق ’تاریخی‘ بریک تھرو سے مشرق وسطیٰ میں امن کو فروغ ملے گا۔ یہ تین رہنماؤں کی بولڈ سفارت کاری اور ویژن کا بیانیہ ہے۔ یو اے ای اور اسرائیل کے ’دلیرانہ اقدام سے خطے میں موجود امکانات سے تمام سٹیک ہولڈرز کو فائدہ اٹھانے کا یکساں موقع ملے گا۔‘

امن معاہدہ اور انضمام

نتن یاہو نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مقبوضہ غرب اردن کے وسیع فلسطینی علاقوں کو گذشتہ ماہ اسرائیل کا حصہ بنانا چاہا، لیکن انہیں بین الاقوامی محاذ اور ملک کے اندر اتحادی حکومت کی سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

اپنے ایک نشری خطاب میں نتن یاہو دنیا کو پرجوش انداز میں بتا رہے تھے کہ انضمام کا منصوبہ ’ابھی میز پر موجود ہے‘ اور میں غرب اردن کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کے ’وعدے پر قائم ہوں‘۔

اماراتی وزیر مملکت برائے امور خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش سمجھتے ہیں کہ سہہ فریقی امن معاہدہ سے مسئلہ فسلطین کے ’دو ریاستی حل کے امکانات محفوظ  ہو گئے ہیں۔‘

اس کالم نگار کی رائے میں فسلطینیوں کی مرضی کے خلاف جمعرات کو طے پانے والے معاہدے سے 2002 میں سامنے آنے والے ’عرب امن منصوبے‘ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ عرب لیگ نے اس امن منصوبے  کی توثیق 2017 میں کی تھی جس کے تحت فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی اور 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے زیر قبضہ جانے والے عرب علاقے واگذار کرائے جانے تھے، جس کے بعد دنیا میں اسرائیل کی سفارتی قبولیت کی راہ ہموار ہوتا تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بات چل نکلی ہے

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب چونکہ برف پگھل رہی ہے، لہذٰا وہ توقع کرتے ہیں کہ مزید عرب اور مسلم ممالک متحدہ عرب امارات کی پیروی کریں گے۔

اسی ضمن میں بن یامین نتن یاہو نے گذشتہ دنوں سوڈان کی حکمران عبوری کونسل کے چیئرمین عبدالفتاح البرھان سے یوگنڈا میں ملاقات کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے ضمن میں تبادلہ خیال کیا۔

سوڈان کا اسرائیل سے تعلقات نارملائزیشن کا اعلان بھی یو اے ای کی طرح خرطوم کی دیرنیہ پالیسی میں واضح تبدیلی ہے۔ معزول صدر عمر البشیر نے اقتدار خاتمے سے قبل انکشاف کیا تھا کہ انہیں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا مشورہ دیا گیا تھا، جو انھوں نے ماننے سے انکار دیا تھا۔

یاد رہے سوڈان اور اسرائیل کے درمیان کبھی دوطرفہ سرکاری تعلقات نہیں رہے، اگرچہ سوڈان سے 2011 میں الگ ہونے والے علاقے جنوبی سوڈان کے تل ابیب سے قریبی تعلقات ہیں۔

پاکستان سفارتی دوراہے پر

ابوظہبی کے حالیہ فیصلے کے بعد پاکستان میں صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشورہ دینے والوں کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہوں گے۔ عرب ملک جن خدشات کی بنا پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ ان میں ایک بھی عنصر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کے طے کردہ مسلمہ اصولی موقف سے انحراف کا جواز نہیں بن سکتا۔ ہماری فوج مذہبی انتہا پسندوں کو مؤثر کارروائیوں کے ذریعے کامیابی سے گھر کی راہ دکھا چکی ہے جبکہ ایران، امریکی پابندیوں اور چین کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے معاشی مفادات کی وجہ سے پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ