می ٹائم کس چڑیا کا نام ہے؟

وہ وقت جو کوئی بھی انسان اکیلے گزارتا ہے اسے آپ اپنی سہولت کے لیے 'می ٹائم' کہہ لیجیے۔ گوروں کی طرف می ٹائم سے مراد ایسا وقت ہوتا ہے جس میں کوئی بھی انسان اپنی پسند کے مطابق کچھ بھی کرتا ہے۔

(پکسابے)

دنیا میں آپ سب کچھ آرام سے حاصل کر سکتے ہیں سوائے اس وقت کے جو مکمل آپ کا اپنا ہو۔  

لوگوں کی اپنی اپنی طبیعت ہوتی ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جنہیں دن میں ایک آدھ مرتبہ ضرورت پڑتی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بیٹھیں، بات کریں۔ چند بالکل اکیلے رہنا بھی پسند کرتے ہیں۔ کچھ کو چوبیس میں سے چھتیس گھنٹے دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ ملنا اچھا لگتا ہے۔  ہمارے یہاں نارمل انہیں ہی سمجھا جاتا ہے۔ 

جو بندہ ذرا سا اکیلا بیٹھنا پسند کرتا ہو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 'جی ان کے تو مزاج ہی نہیں ملتے، چوبیس گھنٹے سڑے رہتے ہیں، آدم بیزار ہو گئے ہیں' یا پھر یہ کہ 'انہیں تو کسی سے بات کرنا پسند ہی نہیں ہے۔' 

وہ وقت جو کوئی بھی انسان اکیلے گزارتا ہے اسے آپ اپنی سہولت کے لیے 'می ٹائم' کہہ لیجیے۔ گوروں کی طرف می ٹائم سے مراد ایسا وقت ہوتا ہے جس میں کوئی بھی انسان اپنی پسند کے مطابق کچھ بھی کرتا ہے۔ وہ فلم دیکھنے جا سکتا ہے، وہ ایک لمبی واک پہ نکل سکتا ہے، وہ پینٹنگ کر سکتا ہے، پڑھ سکتا ہے یا کوئی بھی ایسا کام کر سکتا ہے جسے کرنے کو اس کا دل چاہے۔ ہمارے وسائل کم ہیں۔ ہم سادہ لوگ ہیں، ہمیں پینٹنگ کرنے کے لیے رنگ، پڑھنے کے لیے کتاب، فلم کے لیے ٹکٹ یا واک کے لیے نرم جوتے خریدتے ہوئے جیب جھانکنی پڑتی ہے۔ 

ہمارے یہاں یقین کیجیے صرف اتنا 'می ٹائم' مل جائے جس میں انسان لوگوں میں رہتے ہوئے ایک دو گھنٹے کے لیے اکیلا بیٹھ یا لیٹ جائے، دیواروں کو گھور سکے، خیالی پلاؤ بنا سکے، کسی چیز کی خواہش، صرف خواہش کر سکے، سوچ سکے، وہ سب سوچ سکے جو وہ صبح باتھ روم میں سوچتا ہے یا سوتے وقت، تو اس سے بڑی کوئی بات نہیں ہے۔   

اسے ہم لوگ باقاعدہ عیب سمجھتے ہیں کہ پانچ لوگ بیٹھے ہیں اور گھنٹے بعد آپ اٹھ گئے کہ یار ذرا آرام کرنا ہے۔ بیوی، بچہ، بہن، بھائی، ماں، باپ، دوست یا کوئی دوستی، سب کا منہ چڑھ سکتا ہے کہ صاحب بہادر اب پھر الگ تھلگ لیٹ جائیں گے۔ ایسی روایتوں میں کہ جب کسی بیمار کو پوچھنے کے لیے بھی پورا خاندان اٹھ کے چلا جاتا ہو، 'می ٹائم' نکال لینا دودھ کی نہر کھودنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ ضروری ہے۔ 

اگلے زمانوں میں لوگ مراقبے کرتے تھے، مسجدوں یا مزاروں پہ جا کے ایویں سر گھٹنوں میں دیے بیٹھے رہتے تھے، چھت پہ شام ہوتے ہی سونے چلے جاتے تھے حالانکہ نیند عشا کے بعد ہی آنی ہوتی تھی یا اور کچھ نہیں تو گھر کے باہر کسی تھڑے پہ بیٹھ کے آتے جاتوں کو خالی نظروں سے گھورتے رہتے تھے، یہ ان کا 'می ٹائم' ہی ہوتا تھا۔ چونکہ  اس وقت یہ سب کچھ نارمل تھا اس لیے کسی کو برا بھی نہیں لگتا تھا بلکہ ایسا آدمی 'سائیں جی' کہلاتا تھا۔  

پہلے زندگی واک کیا کرتی تھی اب اسے پہیے لگ گئے ہیں۔ یہ ہرگز بری بات نہیں لیکن زندگی تیز ہوئی تو وقت اس سے زیادہ فراٹے بھر کے دوڑنے لگا۔ اب مراقبے کرنا، مزاروں پہ بیٹھنا، مسجد میں بغیر نماز کے بلامقصد بیٹھے رہنا، گھر کے باہر بیٹھنا، یہ سب ویہلے لوگوں کے کام سمجھے جاتے ہیں، کوئی کرنے پہ تلا بھی ہو تو اب سائیں جی کے بجائے اسے غیر ملکی جاسوس زیادہ آسانی سے سمجھا جائے گا۔  

تو ایسے میں خداوند کے سادہ بندے کدھر جائیں؟ اگر آپ کو لگتا ہے آپ کے اندر کوئی خلا ہے، سب کچھ اچھا ہے لیکن کوئی چیز جیسے ٹوٹ رہی ہے، کچھ گڑبڑ کا احساس ہے، سو سو کے بھی بے سکونی ہے اور کام کر کر کے بھی مطمئن نہیں ہوتے تو فقیر کی بات مانیں کہ آپ کو 'می ٹائم' کی ضرورت ہے۔ نہ صرف آپ کو ہے بلکہ ہو سکتا ہے جو لوگ آس پاس والے ہیں آپ کے، ان کو بھی ہو۔  

آپ نے کچھ بھی نہیں کرنا۔ اکثر گھروں میں ڈرائنگ روم فارغ ہی رہتا ہے سارا سال، آرام سے جا کے وہاں بیٹھ جائیں، یا کسی صوفے پہ لیٹ جائیں۔ پانی کی بوتل ساتھ رکھ لیں، موبائل سے جان چھڑا سکیں تو سبحان اللہ ورنہ رکھ لیں اسے بھی گود میں، خیر ۔۔ تو بس ساری تیاری یوں کریں کہ جیسے آپ سونے والے ہیں لیکن سونا نہیں ہے۔ بس جاگنا ہے اور فراغت کا احساس لیے جاگنا ہے۔  

انسانی جسم کے لیے مشین کی مثال دینا غلط ہے۔ بعض مشینیں لگاتار پورا سال بھی چلتی رہتی ہیں اور خراب نہیں ہوتیں۔ اگر آپ کے گھر کوئی پرانا چھت والا پنکھا ہو جس کے آگے لٹو جیسا منہ ہوتا تھا، جو آپ کی عمر کا ہو (منہ نہیں پنکھا)، تو آپ دیکھیں گے وہ آپ سے زیادہ چست ہو گا۔ ایک چیز لیکن اسے مستقل چاہیے، وہ چیز بجلی ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی بجلی یا آپ کو چلانے والا ایندھن صرف کھانا پینا، سونا، دوائیں کھانا اور لوگوں سے گپ لگانا ہے تو آپ کو دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ آخر آپ کو زندگی بھر سے انوکھے خیال نہاتے ہوئے، اکیلے چلتے ہوئے یا عبادت کرتے ہوئے کیوں آتے ہیں؟ اس لیے کہ اس وقت آپ کے ساتھ صرف آپ ہوتے ہیں۔ آپ کو علم ہوتا ہے کہ یہ پانچ دس منٹ کوئی نہیں آپ کو چھیڑنے والا۔  

تو یہ جو وقفہ ہے، یہ بعض لوگوں کو زیادہ چاہیے ہوتا ہے لیکن وہ اس بارے میں جانتے نہیں ہوتے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں لیکن ان کی چلتی نہیں ہے۔ چند وہ ہیں کہ جو جانتے بھی ہیں، اپنی چلا بھی سکتے ہیں لیکن پھر بھی خود کو وقت دینا انہیں وقت ضائع کرنے جیسا لگتا ہے۔ 

نوکری ہو، اولاد ہو، گھر بنانا ہو یا کسی کھیل کی پریکٹس کرنی ہو، جتنا وقت دیتے ہیں کام اتنا پرفیکٹ ہوتا ہے کہ نہیں؟ عین اسی طرح خود کو بھی ایک پراڈکٹ سمجھ لیں۔ دنیا بھر کے حصے میں سے پانچ پانچ منٹ کاٹ کے اپنے آپ کو دیں۔ خود آپ کو محسوس ہو گا کہ پتہ نہیں کہاں، کس طرح، لیکن فرق پڑ رہا ہے، دماغ بھی جگہ پہ آتا جائے گا۔  

باقی بھائی جی مرنا مرانا سب نے ہے، بڑھاپا آتے تک یہ تو ٹینشن نہ ہو کہ ہائے جوانی کتھے گال چھڈی، اور کہیں نہیں کم از کم اپنے ساتھ تو وقت گزار لیں۔ 

نوٹ: اگر کوئی پھر بھی 'می ٹائم' نہیں نکال سکتا تو اس کا پیر زیادہ تگڑا ہے، وہ صبر کرے اور دعا سے کام چلائے! 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ