عراق: مظاہرین نے بصرہ میں پارلیمانی دفاتر کو آگ لگا دی

مظاہرین نے بصرہ صوبے کی پارلیمان کی عمارت کے بیرونی دروازے کو آگ لگائی۔ یہ عمارت بغداد میں واقع مرکزی پارلیمان کے ذیلی دفاتر کی حامل تھی۔

(اے پی)

اے پی: عراق کے جنوبی شہر بصرہ میں جمعے کو ہونے والے مظاہروں میں مظاہرین نے دو ایکٹوسٹس کے قتل کے بعد حکومتی عدم اقدامات پر پارلیمانی دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ یاد رہے بصرہ شہر عراق میں تیل کی دولت سے مالا مال علاقے میں واقع ہے۔

مظاہرین نے بصرہ صوبے کی پارلیمان کی عمارت کے بیرونی دروازے کو آگ لگائی۔ یہ عمارت بغداد میں واقع مرکزی پارلیمان کے ذیلی دفاتر کی حامل تھی۔

یہ مظاہرے بصرہ شہر میں گذشتہ اکتوبر کے بعد سے متشدد ترین مظاہرے تھے۔ یاد رہے گذشتہ سال ہزاروں شہریوں نے بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بغداد سمیت ملک بھر کے شہروں میں بڑے مظاہرے کیے تھے۔ بصرہ میں 2018 میں بھی حکومت کے خلاف مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔

 ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک فوٹوگرافر نے مظاہرین کی جانب سے جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز کے خلاف آتش گیر مادے کے استعمال کا بھی مشاہدہ کیا۔

نیم سرکاری خود مختار ہائی کمشن فار ہیومن رائٹس کے ترجمان علی البیاتی کے مطابق جھڑپوں میں آٹھ سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔

مظاہرین کی جانب سے گذشتہ ہفتے کے دوران دو سرگرم افراد کی ہلاکت کے بعد بصرہ کے گورنر اسد العیدانی کے استعفی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

بدھ کو بصرہ میں ایکٹیوسٹ رھام یعقوب کو گولی مار کے قتل کر دیا گیا تھا۔ رھام یعقوب نے اکتوبر میں ہونے والے مظاہروں میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔

چند روز قبل ہی ایک اور ایکٹوسٹ تحسین اوسامہ کو بھی مسلح افراد کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کے قتل کے بعد بھی مظاہرین کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی تھی جس کے بعد عراق کے وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے بصرہ کے پولیس سربراہ کو معطل کر دیا تھا۔ لیکن مظاہرین کے مطابق صرف پولیس سربراہ کی معطلی کافی نہیں تھی۔

حکومت کے عدم اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے مظاہرین نے ایکٹوسٹس کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے کے مطالبات پر مبنی بینرر اٹھا رکھے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مظاہرے میں شریک ایک شخص احمد قاسم کا کہنا تھا کہ 'العیدانی ان سرگرم افراد کی ہلاکت کی ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ سکیورٹی اور ان ہلاکتوں میں ملوث افراد کو عدالت میں پیش کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ ان کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور وہ مظاہروں کو طاقت سے روکنا چاہتے ہیں۔'

یاد رہے عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سےہونے والی ان کی ملاقات میں عراق امریکہ تعلقات اور عراق میں موجود امریکی فوجیوں کے مستقبل کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ یہ مصطفی الکاظمی کی وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلی ملاقات تھی۔

ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق اس ملاقات میں بہت سے فوجی معاملات ایجنڈے پر تھے۔

عراقی وزیراعظم نے رواں سال مئی میں عہدہ سنبھالا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا