عراقیوں کو متحد کرنے والے ماضی کے بھوت

عراق کافی مشکل کا سامنا کر چکا ہے۔ 30 سال سے اس کے لوگوں نے کئی عذاب جھیلے ہیں لیکن ان کا وجود ابھی تک قائم ہے۔

اے ایف پی فائل فوٹو

عمارہ کی شمالی سڑک پر بجلی کے بلند کھمبوں کے اوپر سارس پرندوں نے اپنے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہوائی گھر چھ فٹ تک پھیلے ہوئے ہیں۔

مسٹر سیمنز کی اولادوں کی جانب سے بنائے گئے لوہے کے اس شاہکار پر لمبی گھاس اور خشک ڈنڈیوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیتا ہے۔ ان طلسماتی گھروں سے پرندے ایک دوسرے کو تانکتے رہتے ہیں۔

یہ اپنی نوکیلی لمبی چونچ کو نیچے جھکائے عراق کے لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، جو بھیڑوں کو چراتے اور گرمی کی شدت میں سبز پرچم لہراتے ہائی وے کی درمیانی لائن میں شیعہ زائرین کو کھانے اور مشروب نوش کرنے کی دعوت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ ایک حقیقی اور سخاوت پر مبنی روایت ہے۔ دیہاتی سڑک کنارے جمع ہو کر سامنے سے گزرتی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے شمال کی جانب سے نجف اور کربلا جا رہے ہیں۔

میں زائرین کے کھانا کھانے کے لیے رکنے کی وجہ سے ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔ اس مہربانی کے لیے زائرین سے ایک دینار بھی نہیں لیا جاتا۔  

شاید سارس بھی ہوا میں اڑتے ہوئے سخاوت اور تقوی کے اس مظاہرے پر رشک کرتے ہوں گے۔ بصرہ جانے والی سڑک پر نیلی اور سفید ٹائلوں سے مزین مزارات کے ساتھ کنکریٹ کے فرنیچر تعمیر کرنے کی انسانی صلاحیت بھی ان کے مشاہدے میں آتی ہو گی۔

کیا ہم دیہی علاقے کی خوبصورتی کو واپس نہیں لا سکتے اور اس کے مسائل کو ختم نہیں کر سکتے جہاں پانی اب واپس دلدلی علاقوں میں جا رہا ہے۔ یہ علاقے 1990 کی دہائی میں صدام حسین کے ظالمانہ دور میں خشک سالی کا شکار رہے لیکن پھر مجھے یاد ہے کہ کس طرح غربا نے اپنی جھونپڑیاں قرین وسطیٰ کے یورپی گرجا گھروں کے عین سامنے کھڑی کر لیں۔ یہ بہت معنی خیز تھا۔

یہاں مزاروں والے عظیم شہروں میں بھی ایسا ہی ہے۔ آپ گرد اور دھویں کے بھبھوکوں میں الجھے بغیر امام علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے مزار تک نہیں پہنچ سکتے۔ کربلا میں امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) اور حضرت عباس (رضی اللہ تعالی عنہ) کے مزاروں کے قریب گلیاں قربان کیے جانے والے جانورں کے خون سے سرخ ہیں اور جانورں کو کانٹوں کے ساتھ لٹکایا گیا ہے، لیکن اب مجھے اس کی عادت ہو گئی ہے۔

ہر شام میں یہاں ایک قریبی کیفے میں چائے پیتا ہوں جہاں ایک بوڑھا آدمی حقہ پھونک رہا ہوتا ہے۔ ایک دن میں نے اپنے دوست کی جانب سے دیا گیا سگار سلگانے کی جسارت کر ہی لی۔ یہ سگار مجھے میرے دوست نے بیروت میں دیا تھا۔ میری داہنی طرف بیٹھے ایک درمیانی عمر کے کسان نے پوچھ لیا: ’یہ کہاں سے آیا ہے؟‘

میں نے انہیں بتایا : ’کیوبا سے۔‘ دو اور آدمیوں نے بھی اس دور دراز ملک کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی۔ وہ جانتے تھے کہ کاسترو کون ہے۔ میں اسی لمحے اس کو بھولنا چاہتا تھا جب مجھے صدام کی سگار سے پسندیدگی یاد آئی، اور پھر یہ تینوں لوگ اس غیر ملکی سے بات چیت کرنے لگے۔

ان میں سے ایک کا بھائی صدام حسین کی جیل میں تشدد کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ دوسرے کا بھائی 1991 کی شیعہ شورش میں مارا گیا تھا۔ اسی دوران اس کسان نے اپنی جیبوں کو تھپتھپاتے ہوئے کوٹ کی جیب سے ایک موبائل نکالا۔ ان تینوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ وہ کربلا کے مقدس شہر میں ایک سگار پیتے غیر ملکی کے ساتھ سیلفی بنانا چاہتے تھے۔

میں اب یہ یاد کرنے سے ہچکچاتا ہوں کہ کتنی بارعراقی شیعہ صدام دور کے خوفناک اورغیر انسانی سلوک پر اپنا سر جھٹک کر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔

ہم صحافی ابھی تک یقینی ہیڈلائنز سے خوف کھاتے ہیں کہ صدام کا بھوت جنگ سے متاثرہ عراق میں ابھی بھی گھوم رہا ہے۔ یہ بش اور بلئیر ہی تھے جنہوں نے قدیم میسو پوٹیمیا پر چڑھائی کی جس نے عراق کو تقسیم کر ڈالا، لیکن شیعہ عراقیوں کے لیے صدام ابھی تک ایک سائے کی طرح پیچھا کر رہا ہے۔  

میرے ایک جاننے والے صدام دور میں اپنی دس سالہ قید کو یاد کرتے ہیں کہ کیسے جیل کی سلاخوں سے دکھنے والی تیز روشنیاں جالیوں کو چیر کر آرہی تھیں۔ یہ 1991 میں امریکہ کی جانب سے بغداد پر داغے جانے والے کروز میزائل تھے۔

 یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ یہ کیسے انسانی وقار کے عجیب سے احساس کو جگاتی ہے جو کہیں دور موجود ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں جب عزت اور دیانت ایک نایاب چیز سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت وہ امریکی قبضے میں جی رہے تھے۔ ایسی ہی ایک مثال میرے ایک عراقی دوست کے الفاظ میں اس کے مرحوم والد تھے۔ وہ بتاتے ہیں:

’یہ 1950 کے اوائل کی بات ہے کہ حکومت عراق سے یہودیوں کو بے دخل کر رہی تھی۔ ان میں سے ہزاروں کو ان کی زمین جائیداد سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ عراقی اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مہنگے اور بڑے گھر کم ترین قیمتوں پر خرید رہے تھے۔ یہ یہودیوں کے ان گھروں پر قبضہ کرنے جیسا تھا۔ لیکن میرے والد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ایک یہودی سے گھر خریدنے کی بات تو کی لیکن وہ پوری قیمت کے بدلے یہ گھر خریدنا چاہتے تھے۔ وہ اس گھر کے مالک کے ساتھ بینک بھی گئے تاکہ اسے پوری رقم مل سکے۔ لیکن میرے والد نے اس بارے میں مجھے کبھی نہیں بتایا۔ یہ میری پھوپھی تھیں جنہوں نے میرے والد کی وفات کے بہت عرصے بعد مجھے یہ بات بتائی۔‘

میں اسی شام کربلا میں فرانسیسی اخباروں کے ایک ضمیمے میں ڈوبا تھا جو میں نے ہفتوں پہلے پیرس سے خریدے تھے۔ مجھے عادت ہے مضامین اکٹھے کر کے بعد میں پڑھنے کی اور ایک غیر معمولی چیز کے طور پر میں نے ایک ریویو دیکھا جو لی فیگارو میں ایک نمائش کے بارے میں تھا جو فرانس میں نازی جرمنوں کے زیر سایہ یہودی قیمتی اشیا کی 1940 سے 1944 کے درمیان ایک نمائش کے بارے میں تھا۔ یہاں ایک تصویر بھی تھی جو جولائی 1944 سے پیرس کی گیلری چارپنٹیر کا تھا۔ ڈی ڈے کے بعد میں نے دیکھا کہ کس طرح پیرس کی اشرافیہ پہلی صفوں میں براجمان رینوئیر کی پورٹریٹ کو دیکھ رہی ہے۔

تصویر میں خوبرو خواتین پروں والے ہیٹس میں اور چشمہ سجائے کاروباری حضرات گھٹنوں پر فلیٹ ہیٹ رکھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے فرانسیسوں نے بھی نازیوں کی جانب سے لوٹ مار کی گئی اشیا کی لگ بھگ وہی قیمت لگائی ہوگی جو عراقیوں نے 1950 کے اوائل میں یہودیوں کے مکانات کی لگائی تھی۔ لیکن فرانس کے معاملے میں تو زیادہ تر یہودیوں کا خاتمہ کیا جا چکا تھا۔ ایک تخمینے کے مطابق دو لاکھ نادر اشیا جن میں فنون لطیفہ، قدیم شراب، پرانی عمارات اس قبضے کے دوران فروخت کی گئی تھیں۔

لیکن میرے دوست کے والد نے اپنے خاندان کا یقین برقرار رکھا۔ 1950 کے نسل پرست بغداد میں انہوں نے ایک یہودی کے مکان کی مکمل قیمت ادا کی تھی۔ میں جانتا ہوں یہ ایک صرف ایک کہانی ہے لیکن یہ ابتلا کے شکار اس ملک میں ایک امید کو زندہ کرتی ہے۔

صدام دور میں اور پھر ابتدائی امریکی قبضے کے دوران اس کے کارندوں کے زمانے میں اور پھر اس کے بعد داعش کے گروہ کے دن، اس سب کے باوجود ایک مشکل سے ملنے والی دیانت داری موجود ہو سکتی ہے جس کی قدر میرا دوست اچھی طرح سمجھتا ہے۔

اور بخدا وہ ٹھیک تھا۔ میں نے مرکزی بغداد میں ٹیکسی کا سفر کیا ہے اور گرین زون میں تو شام پانچ بجے کے بعد میں بغیر تلاشی کے بھی جا چکا ہوں۔ پورے شہر میں خوف اور دہشت کی وہ دیواریں جو مختلف فرقے کے لوگوں نے، قابضین اور مقبوضہ افراد نے اور خاندانوں کے درمیان موجود تھیں، اب گر چکی ہیں۔ یہاں پر پولیس والے قانون پر عمل نہ کرنے والے ڈرائیورز پر سیٹیاں بجا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں خوش آمدید۔ یہ ایسے شہر کی طرح تھا جس کا دل دوبارہ دھڑک رہا تھا۔ یہ قتل و غارت گری کے دور کے بعد ایک شہر کی تاریخی واپسی تھی۔

لیکن امریکی قبضہ ابھی تک جاری ہے۔ اس امریکی اڈے سے نہیں جہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریر کی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں سے ایران پر گہری نظر رکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ امریکہ کی ایران پالیسی کے ٹھہرے پانیوں میں ہی ممکن ہے جہاں واشنگٹن نے خود کو محمد بن سلمان اور نتن یاہو کے ساتھ مقید کر لیا ہے۔ یہ خطرناک اور ناقابل بھروسہ اتحاد، جہاں عراق قدیم ایران اور عرب کی ریتلی زمین کے درمیان پھنس چکا ہے۔

عراقیوں کے لیے ٹرمپ، بن سلمان، نتن یاہو خلاف فطرت ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس کو مہینوں پہلے میونخ میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس میں بہت اچھے سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’امریکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران خطے میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ لیکن کیا یہ پوچھا گیا کہ کس خطے میں؟‘

نقشے کو دیکھیں، امریکی فوج نے اپنے سرحد سے دس ہزار کلو میٹر کا تجاوز کیا ہے۔ ایک لطیفہ بھی ہے کہ ایران نے خود کو امریکی اڈوں کے درمیان محصور کر رکھا ہے۔

یہ جملہ امارات کے ساحل پر سعودی آئل ٹینکرز پر بظاہر حملے کے بعد کچھ زیادہ خوش کن محسوس نہیں ہوتا۔ اگر امریکہ ایران کے حوالے سے ’جنونی رویے‘ کا شکار ہے جیسا کہ جواد ظریف بیان کرتے ہیں تو عراق ایران کی فرنٹ لائنز پر موجود ہے اور باوجود اس کے کہ عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں یہ کافی مشکل ہو گا اگر عراق میں موجود امریکی جنگی طیارے، بحری بیڑہ یا میزائل ایران کے قریب آئے۔

امریکہ کی ایرانی حکومت کو تباہ کرنے کی خواہش کے باوجود ایران اور عراق کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ عراقی آیت اللہ العظمی علی السیستانی کی ایرانی صدر حسن روحانی سے مارچ میں ہونے والی ملاقات اس بات کا واضح نشان ہے کہ عراقی شیعہ رہنما ایرانی حکومت کی کمان معتدل اور اصلاح پسند طبقے کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا عراق اپنی تیل کی پیداوار کو بڑھا کر ایران پر انحصار کم نہیں کر رہا؟ ایک ماہ بعد جب وزیر اعظم مہدی تہران کے دورے پر تھے، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ان کو کہا کہ عراق میں باقی رہ جانے والی امریکی فوج کو جلد از جلد نکال دینا چاہیے، مہدی نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔

آپ عراقی حکومت کو اس بات کا الزام نہیں دے سکتے۔ کیا بصرہ کا شہر جہاں کچرے کے ڈھیر لگے ہیں اور بجلی کی بندش کا شکار ہے۔ جہاں لوگ شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کیا تیل پر بڑا منافع کمانا بغداد کے لیے ایران سے زیادہ اہم نہیں ہو گا؟ داعش کا متشدد گروہ جو صوبہ الانبار اور صحرائی علاقے میں ابھی تک موجود ہے ایران امریکہ جنگ سے زیادہ بڑا خطرہ نہیں ہے؟ عراق نے امریکہ سے کہا ہے کہ اسے پابندیوں سے مزید چھوٹ دی جائے تاکہ وہ موسم گرما کے آخر تک ایران سے مزید گیس اور بجلی درآمد کر سکے۔

 لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ عراق کو ایک بار پھر تشدد کا شکار بنایا جائے؟ یہاں تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ عراقی، کردوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر امریکی فوج کے شکنجے سے باہر آچکے ہیں۔ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جنوبی عراق کے مسلح شیعہ گروہ کتنا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔

میں نے ایک دن دیکھا کہ کربلا کے جنوب میں ایک فوجی ٹیم شیعہ گروہوں کی چیک پوائنٹس سے گزر رہی تھی۔ میرے ڈرائیور نے مجھ سے کہا: ’انہیں یہاں نہیں ہونا چاہیے‘۔ وہ فوجیوں کے امریکی ہیلمٹس اور جیکٹس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا لیکن جو بات پریشان کن تھی وہ یہ تھی کہ یہ فوجی چہرے پر کالے ماسک چڑھائے ہوئے تھے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ عراق میں کوئی وزیر داخلہ یا وزیر دفاع تعینات نہیں ہے۔

ایک طرح سے صدام تمام لوگوں کو متحد کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ملیشیا نے کرکوک میں ایک اور اجتماعی قبر کا سراغ لگایا ہے، میں بغداد سے شمال کی جانب روانہ ہوا۔ لیکن پھر یہ خبر ملی کہ سماوہ سے سو کلو میٹر مغرب میں ایک اور اجتماعی قبر کا انکشاف ہوا ہے۔ اس قبر میں مدفون درجنوں افراد داعش کے ہاتھوں قتل ہونے والے شیعہ نہیں بلکہ صدام کا شکار کرد تھے جو 1988 میں انفال مہم میں نشانہ بنے تھے۔

عراقی صدر برہیم صالح خود ایک کرد ہیں۔ وہ اس قبر کشائی کے وقت خود موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں : یہ شہدا اس لیے مارے گئے کیونکہ یہ ایک آزاد اور عزت دار زندگی جینا چاہتے تھے۔ نئے عراق کو وہ تمام جرائم نہیں بھولنے چاہیئں جن کی قیمت تمام عراقیوں نے چکائی ہے۔‘

اور پھر اس ’نئے‘ عراق کو ایک پرانا بھوت یاد کرنا پڑتا تھا جو 1980 میں ایران کے ساتھ جنگ لڑا، وہ بھی امریکی ایما پر، ایرانی انقلاب کو ختم کرنے کے لیے، آج سے 30 سال قبل اور آج پھر 30 سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ اس انقلاب کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح سعودیوں اور کویتیوں نے صدام کو شہہ دی، اور کس طرح اسرائیل خوش تھا دو مسلمان ملکوں کو آپس میں گھتم گتھا دیکھ کر۔ پھر امریکی بحری بیٹرے کو خلیج روانہ کیا گیا یہ کہہ کر کہ ایران موجودہ نسل کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے۔

یہ پرانی کہانی ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ صدام ابھی تک زندہ ہے، اس کے سپاہی ابھی تک ایرانی سرحد پر زہریلی گیس کے بادل پھیلا رہے ہیں، ابھی بھی کردوں کو تباہ کر رہے ہیں اور شیعہ عراقیوں کو دھمکا رہے ہیں۔ کچھ قومیں ہمیشہ بچ جانے کی عادی ہوتی ہیں۔ ایران بھی بچ جائے گا۔ عراق، شام اور لبنان بھی۔ اردن کا میں کچھ کہہ نہیں سکتا اور اس تمام کے باوجود کیا واشنگٹن کے جنگی بیانات کوئی اہمیت رکھتے ہیں؟ کیا ہم ایک بار اسی پرانی جنگ میں نہیں جھونکے جا رہے ہیں۔

ایران عراق جنگ ایرانی انقلاب کو تباہ کرنے کی پہلی مغربی کوشش تھی۔ 2006 کی اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان جنگ شاید دوسری کوشش تھی۔ ایران کے واحد عرب اتحادی شام کی خانہ جنگی تیسری کوشش تھی۔ تو چوتھی جنگ کہاں چھڑ سکتی ہے؟

عراق کافی مشکل کا سامنا کر چکا ہے۔ 30 سال سے اس کے لوگوں نے کئی عذاب جھیلے ہیں لیکن ان کا وجود ابھی تک قائم ہے۔ یہ شاید چرب زبانی محسوس ہو لیکن شاید یہ صحافیانہ ہے، لیکن میری خواہش ہی تھی کہ سارس بول سکتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ