'خود پسند ارنب گوسوامی کے لیے کام کرنے پر معافی مانگتا ہوں'

بھارتی نجی چینل 'ریپبلک ٹی وی' کے جموں میں مقیم بیورو چیف تیجیندر سنگھ سوڈھی نے یہ کہتے ہوئے چینل سے استعفیٰ دے دیا کہ ارنب 'نارسسٹ' ہیں۔

ارنب گوسوامی پہلے ٹائمز ناؤ سے وابستہ تھے اور بعد میں اپنا چینل شروع کیا (اے ایف پی)

بھارت کے نجی نیوز چینل 'ریپبلک ٹی وی' کے جموں میں مقیم بیورو چیف تیجندر سنگھ سوڈھی نے یہ کہتے ہوئے اس چینل سے استعفیٰ دے دیا کہ اس کے ذریعے 'صحافت کا قتل' ہو رہا ہے۔

تیجندر نے ریپبلک ٹی وی کے مدیر اعلیٰ ارنب گوسوامی کو نارسسٹ قرار دیتے ہوئے کہا  کہ 'یہ آدمی اپنی ٹیم کو کبھی کریڈٹ نہیں دیتا۔' 

ریپبلک ٹی وی کے بیشتر پروگرام برسر اقتدار ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دفاع میں اور بھارت کی مذہبی اقلیتوں اور پاکستان کے خلاف ہوتے ہیں۔

اس ٹی وی چینل کے تقریباً تمام پرائم ٹائم ٹاک شوز کی میزبانی ارنب گوسوامی خود کرتے ہیں، جن کے دوران 'مچھلی بازار' اور 'دنگل' جیسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ٹاک شوز میں مدعو کیے جانے والے اکثر مہمانوں کو شکایت رہتی ہے کہ انہیں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔

بھارت میں اگرچہ بی جے پی سے وابستہ افراد اس ٹی وی چینل سے کافی خوش ہیں تاہم ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کا ماننا ہے کہ اس ٹی وی چینل کے ذریعے صحافتی اقدار پامال ہو رہے ہیں۔ تیجندر کے ریپبلک ٹی وی سے علیحدگی اختیار کرنے کے فیصلے نے نہ صرف ارنب گوسوامی کے لیے مشکلیں پیدا کیں بلکہ اس چینل کے کام کرنے کے منفی طریقہ کار کو بھی 'عیاں' کر دیا ہے۔

تیجندر نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان ایک ٹوئٹ میں کیا جس میں ان کا کہنا تھا: 'صحافت کی روح کو ساڑھے تین سال تک قتل کرنے پر معافی مانگتے ہوئے میں ریپبلک ٹی وی سے مستعفی ہوچکا ہوں۔ مزید تفصیلات یہاں پر بہت جلد شیئر کروں گا۔'

ان کی اس ٹوئٹ کو بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے اور صارفین کا ملا جلا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جہاں متفکر طبقہ تیجندر کی جرات کو داد دینے میں مصروف ہے وہیں بی جے پی سے قربت رکھنے والا طبقہ ٹرولنگ میں مصروف ہے۔

تیجندر نے ارنب پرالزام لگایا اور لکھا: 'یہ آدمی نارسسٹ ہیں۔ اپنی ٹیم کو کبھی کریڈٹ نہیں دے گا۔ اگر ریپبلک ٹی وی ٹی آر پی کے لحاظ سے نمبر ون ہیں تو یہ پوری ٹیم کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن آپ ہر طرف صرف اسی آدمی کی تصویریں دیکھیں گے۔ ان کے لیے یہ صرف ایک آدمی کا شو ہے۔ اگرچہ ٹیم خود ٹوئٹ کرسکتے ہیں لیکن ان کی کوششوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔'

نارسسٹ ایک ایسے شخص کو کہتے ہیں جو 'خود پسند' اور 'خود غرض' ہو۔ یہ ایک مینٹل ڈس آرڈر بھی ہے۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیجندر کے مطابق ریپبلک ٹی وی میں کسی نہ کسی کو ارنب کے خلاف بولنا تھا اور انہوں نے معاملے میں کسی کا انتظار کیے بغیر یہ کام خود ہی انجام دیا ہے۔

انہوں نے ایک ٹوئٹ کے جواب میں لکھا: 'بھائی آج تک کسی نے بھی اس آدمی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی کیونکہ وہ اپنے کیریئر میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس کے ان کے کیریئر پر اثرات پڑیں گے۔ میرا یقین کریں کسی نہ کسی کو تو آواز بلند کرنی تھی۔ میں نے سوچا کیوں کسی کا انتظار کیا جائے، میں آواز کیوں نہیں اٹھا سکتا ہوں۔'

 

تیجندر نے انہیں ٹرول کرنے والوں کو بتایا کہ وہ اتفاقی طور پر صحافی نہیں بنے بلکہ انہوں نے صحافت کی تعلیم امریکہ اور کشمیر یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔

'ان کے لیے جو مجھے ٹرول کر رہے ہیں۔ میں اتفاق سے ایک صحافی نہیں ہوں۔ میں نے یونیورسٹی آف کنساس سے جرنلزم میں ایم ایس کیا ہے۔ یونیورسٹی آف کشمیر سے جرنلزم میں پوسٹ گریجویشن کی ہے۔ بھارت کا واحد ایسا شہری ہوں جس نے یو ایس آرمی کمانڈ اینڈ جنرل سٹاف کالج میں پڑھا ہے۔ نیشنل پریس کلب ڈی سی میں خطاب کرچکا ہوں لہٰذا ٹرولنگ سے پہلے خود احتسابی کریں۔'

 

سمیر سنگھ نامی شخص کے ٹوئٹر پر تبصرے کہ 'ارنب گوسوامی نے اپنے دم پر چینل کھڑا کیا ہے اور لوگ ان کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ کوئی بڑا نام نہیں تھا ریپبلک' کے جواب میں تیجیندر نے لکھا: اپنے دم پر بھائی تاج محل بھی خود نہیں بن گیا۔آپ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں لیکن کوئی بھی چیز بنانے کے لیے افرادی قوت چاہیے۔ ریپبلک میں کام کرنے والے ہر ایک آدمی نے اس ادارے کو کھڑا کیا ہے لیکن یہ آدمی کبھی ان کی کوششوں کو تسلیم نہیں کرتا'۔

 

انڈپینڈنٹ اردو نے تیجندر سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے بات کرنے سے انکار کیا کہ وہ معاملے پر مزید بات نہیں کرنا چاہتے۔

کشمیر ٹائمز کی مدیر اعلیٰ انورادھا بھسین نے بھی کہا کہ وہ تیجیندر کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتیں۔ جموں میں مقیم سینیئر صحافی الطاف حسین جنجوعہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ارنب گوسوامی کا چینل جاحارنہ لہجے اور اشتعال انگیزی کو فروغ دے رہا ہے۔

'آپ حقائق اور دلائل کے ساتھ اپنی بات سامنے رکھیں گے تو ٹھیک ہے لیکن یہ چینل جارحانہ لہجے اور اشتعال انگیزی کو فروغ دے رہا ہے۔ ارنب گوسوامی پہلے ٹائمز ناؤ سے وابستہ تھے اور بعد میں اپنا چینل شروع کیا۔ انہوں نے ایک ایسی ٹی وی صحافت کو جنم دیا جس کو کوئی حساس انسان بیٹھ کر دیکھ نہیں سکتا۔ مہذب اور عقل و فہم رکھنے والا کوئی بھی شخص ان کی صحافت کو پسند نہیں کرتا۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل