حکومتی ترجیحات: معیشت کی بحالی یا نواز شریف کی واپسی؟

کیا کسی حکومت کا اس قسم کے سنگین معاشی بحران کے دوران ایک سیاسی مخالف کے خلاف اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کرتے ہوئے نظر آنا ہمارے معاشی مسائل کا حل ہے؟

پاکستانی معیشت کے تمام اشاریے زوال کی طرف گامزن ہیں (اے ایف پی)

پچھلے دو سالوں سے ہماری بیمار معیشت کے بہتر ہونے کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ کرونا بحران نے اس بیمار معیشت کی رہی سہی کسر نکال دی ہے اور بہت سے معاشی ماہرین کے مطابق ہماری معیشت اس وقت شدید نگہداشت والے کمرے میں ہے۔

یہ کالم خود مصنف کی آواز میں سنیے

 

سٹیٹ بینک اور دیگر بین الاقوامی مالی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق غربت، بے روزگاری اور افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ مجموعی آمدنی، ترقیاتی کام اور روپے کی قدر  زوال پذیر ہیں اور ہمارے نیروز سب اچھا ہے کی بانسری بجا رہے ہیں۔ انہیں سب ہرا نظر آ رہا ہے۔ نہ انہیں عوام کی بدحالی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ہماری گرتی ہوئی فی کس آمدنی انہیں تشویش میں مبتلا کرتی ہے جو 2018  میں 1652 ڈالر تھی مگر اب گر کر 2020 میں 1388 ڈالر پر آ گئی ہے۔

پچھلے دو سالوں میں ہماری مجموعی پیداوار 315 ارب ڈالر سے گر کر اس وقت 264 ارب ڈالر ہو گئی ہے جس کی وجہ سے آبادی کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے اور متوسط طبقہ غربت کی لکیر کے قریب آن پہنچا ہے. اونچی اڑان بھرتے ہوئے افراط زر نے غریب اور متوسط طبقے کو برابری کی بنیاد پر نشانہ بنا رکھا ہے۔

معاشی بد انتظامی کی وجہ سے شرح نمو 2018 میں 5.8 فیصد سے گر کر 2020 میں منفی 0.4 پر پہنچ چکی ہے۔ پرانی حکومتوں کو بھاری قرضے لینے کے الزامات دیتی ہوئی موجودہ حکومت نے پچھلے دو سالوں میں قرضہ لینے کے سارے پرانے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ وفاقی حکومت کے 2018 تک لیے گئے قرضوں میں 2020 تک 12 کھرب روپے کے قرضوں کا اضافہ ہوا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ان قرضوں کے استعمال کے بارے میں تفصیلات دینے پر حکومت خاموش ہے۔ نہ اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ جب سب ترقیاتی کام بند ہیں تو اتنی بڑی تعداد میں قرضہ کس کام کے لیے استعمال کیا گیا؟

ان بے حساب قرضوں کی وجہ سے مجموعی پیداوار اور قرضے کے درمیان فرق 2018 میں 72 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 87 فیصد کی خطرناک سطح تک پہنچ چکا ہے۔

اگر آپ مکمل قرضہ اور واجبات کی طرف آئیں تو یہ 29 کھرب روپے سے بڑھ کر 42 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مارچ 2020 تک کے ہیں اور مالی سال کے باقی تین مہینوں میں اس میں مزید اضافہ ہوا ہو گا۔ ایک ایماندار حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ دعوے کیے گئے تھے کہ بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی بارش شروع ہو جائے گی اور اس بارش میں تارکین وطن پاکستانی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے لیکن دوسرے معاشی اشاریوں کی طرح اس میدان میں بھی تنزلی دکھائی دی۔ 2018 میں بیرونی سرمایہ کاری 3.4 ارب ڈالر تھی جو 2020 میں گر کر 2.6 ارب ڈالر پر آ گئی ہے۔

موجودہ حکومت نے ٹیکسوں کے نظام میں بہتری لانی تھی اور بہترین دماغ اس کام کے لیے مامور کیے جانے تھے۔ متعدد تبدیلیوں کے باوجود ایف بی آر موجودہ حکومت کی قیادت کے نیچے ٹیکس کے نظام میں بہتری یا ٹیکس بڑھانے میں مکمل ناکام ہوا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال تو پہلی دفعہ پچھلے سال کے مقابلے میں کم ٹیکس جمع کیا گیا۔

2018 میں 3845 ارب روپے ٹیکس جمع کیے گئے جو 2020 میں صرف 3998 ارب تک پہنچ پائے۔ اگر ان میں سے واپس کرنے والی ادائیگیاں منہا کر لی جائیں تو یہ تقریباً 3826 ارب روپے ہوں گے جو 2018 کے جمع کیے جانے والے ٹیکسوں سے بھی کم ہو جائیں گے۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکومتی حکمت عملی نظر نہیں آتی اور اس وقت کے ایف بی آر کے چیئرمین تو صرف کچھ مہینوں کے لیے ایک اور کیس میں درکار نتائج حاصل کرنے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ اس لیے ان سے مثبت تبدیلی یا ٹیکس جمع کرنے کی تعداد میں اضافہ ہونے کی امید کرنا بے سود ہے۔

بدانتظامی ہر مالی شعبے میں چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ بدانتظامی اور نا اہلی کا سب سے بڑا شاہکار خطرناک حد تک بڑھتا ہوا گردشی قرضہ ہے جو 2018 میں1026 ارب پر تھا اور 2020 میں چھلانگیں مارتا ہوا 2200 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ نہ تو حکومت بجلی کی چوری کو روکنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی نادہندگان سے بجلی کے بل وصول کرنے میں بہتری آئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدانتظامی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت خود سب سے بڑی نادہندہ ہے۔ آئی پی پی سے مذاکرات میں حکومت کی کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ بجلی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

حکومتی دعووں کے برعکس صنعتی ترقی ایک جمود کی کیفیت سے دوچار ہے۔ بڑے صنعتی اداروں میں ترقی کی شرح 2018 میں 5.4 فیصد تھی جو پچھلے دو سالوں میں گر کر منفی 10.2 فیصد پر آ گئی ہے۔ اس سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ برآمدات کو بھی نقصان پہنچا ہے ہے۔

جب روپے کی قدر گرائی جا رہی تھی تو یہ دعوے کیے جا رہے تھے کہ اس سے برآمدات میں نمایاں اضافہ ہو گا مگر روپے کی قدر میں پچھلے دو سالوں میں 40 فیصد سے بھی زیادہ  کمی کرنے کے باوجود برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 2018 میں برآمدات 24.8 ارب ڈالر تھیں، جو 2020 میں 22.5 ارب ڈالر تک گر گئی ہیں۔

برآمدات میں نو فیصد کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ روپے کی قدر گرانے کی حکمت عملی ناقص تھی اور اس میں شاید زیادہ سوچ بچار ہی نہیں کی گئی۔ اس نقصان دہ فیصلے سے نہ صرف ہمارے قرضوں میں اضافہ ہوا بلکہ درآمدات مہنگی ہونے کی وجہ سے صنعتی ترقی کی رفتار بھی رک گئی۔

حکومتی دعوے کے باوجود بجٹ کے خسارے میں کمی کی بجائے نمایاں اور خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں بجٹ کا خسارہ 6.5 فیصد تھا جو 2020 میں بڑھ کر 8.1 فیصد ہو گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں 2018 کے مقابلے میں معمولی اضافہ تو ہوا ہے مگر اس کی وجہ دوست ملکوں کے سات ارب ڈالر ہیں جو انہوں نے مختصر مدت کے لیے سٹیٹ بینک میں جمع کرائے ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب نے اپنے حصے کے پیسے واپس مانگنا شروع کر دیے ہیں۔

غرض ملک ایک معاشی افراتفری کا شکار ہے اور حکومتی عہدیداروں کی باتوں سے کسی قسم کی معاشی بہتری کی امید نظر نہیں آتی۔ کسی حکومتی معاشی  بزرجمہر نے ہمارے وزیراعظم کو بتا دیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس پر قابو پانے سے سارے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔

لیکن انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ درآمدات کو تقریباً بند کر دینے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم تو ہوا ہے لیکن اس سے معاشی ترقی کی رفتار کو سخت دھچکہ لگا ہے کیونکہ مشینری کی درآمد تقریباً رک گئی ہے اور نئی صنعتیں قائم ہونا بند ہو گئی ہیں۔ اس سے ہمارے محصولات پر بھی شدید اثر پڑا ہے اور ان میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی ایک کمزور معاشی پالیسی ہے نہ کہ اس پر فخر کیا جائے۔

اس معاشی بحران کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کی ساری توجہ اس میدان پر مرکوز ہونی چاہییں اور حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ان مسائل سے برسرپیکار نظر آنا چاہیے۔

مگر ہم پچھلے کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان معاشی مسائل کا مقابلہ کرنے کی بجائے حکومتی ترجیحات صرف اور صرف سابق وزیراعظم نواز شریف کو وطن واپس لانے پر مرکوز ہیں۔ ستم بالائے ستم پچھلے دنوں اطلاعات کے مطابق کابینہ نے اپنے قیمتی وقت میں سے چھ گھنٹے اس بحث پر صرف کیے کہ نوازشریف کو کیسے وطن واپس لایا جائے اور کیسے طبی شعبے کے ماہرین نے حکومت کی آنکھ میں دھول جھونک کر اور جعلی رپورٹیں پیش کر کے نواز شریف کو ملک سے باہر جانے میں مدد دی۔

کیا ایک سنجیدہ حکومت سے آپ اس قسم کی شعبدہ بازیوں کی توقع کر سکتے ہیں جس میں کبھی وہ اپنے ہوابازوں کو جعلساز قرار دیں اور کبھی طبی شعبے کے ماہرین کی مہارت پر سوال اٹھائیں؟ کیا کسی حکومت کا اس قسم کے سنگین معاشی بحران کے دوران ایک سیاسی مخالف کے خلاف اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کرتے ہوئے نظر آنا ہمارے معاشی مسائل کا حل ہے؟ ہرگز نہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سیاسی دشمنیوں سے بالا ہو کر حزب اختلاف کو ساتھ ملا کر اس وقت ملک کو درپیش خوفناک معاشی مسائل اور عوام پر مہنگائی کے بوجھ کو کم کرنے پر توجہ دے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ