بیمار، ضعیف خواتین قیدیوں کی رہائی کے فیصلے پر سماجی تنظیمیں خوش

وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو ٹوئٹر پر اعلان کیا تھا کہ انہوں نے متعلقہ اداروں کو زیرِ سماعت مقدمات میں نامزد اور سزا یافتہ خواتین قیدیوں کی فوری رہائی کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم نامے پر فوری عملدرآمد کی ہدایات دے دی ہیں۔

8 جولائی 2006 کی  اس تصویر میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں موجود خواتین قیدی  (فائل تصویر: اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں جسمانی یا دماغی بیماری میں مبتلا یا 55 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین قیدیوں کو جیل سے رہا کرنے کے اعلان کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور سماجی کارکنوں نے سراہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو ٹوئٹر پر اعلان کیا تھا کہ انہوں نے متعلقہ اداروں کو زیرِ سماعت مقدمات میں نامزد اور سزا یافتہ خواتین قیدیوں کی فوری رہائی کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم نامے پر فوراً عملدرآمد کی ہدایات دے دی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان نے ملک بھر کی تمام جیلوں میں موجود نوعمر قیدیوں کو رہا کرنے کا بھی اعلان کیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے چند مہینے قبل  مقدمہ نمبر 299/2020 میں ایسی تمام خواتین قیدیوں سے متعلق فیصلہ دیا تھا اور اس فیصلے پر کوئی اپیل نہیں ہوئی تھی۔

عمران خان نے اپنی ٹویٹس میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر رہائی کی غرض سے غور کے لیے سزائے موت پانے والی ایک خاتون سمیت پاکستانی جیلوں میں قید غیر ملکی خواتین سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں ملک بھر کی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔

پاکستان اور بیرون ملک قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے وزیراعظم کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے لکھا: 'سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں ٹرائل کا سامنا کرنے والی خواتین قیدیوں کی رہائی کے فیصلے سے بہت ساری کمزور خواتین کو بے حد ریلیف ملے گا۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جلد ہی اپنے خاندان کے ساتھ متحد ہوجائیں گی۔'

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن رابعہ جویری آغا نے بھی خواتین قیدیوں کی رہائی سے متعلق فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور ان کی ٹیم کو سراہا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق پاکستان میں تقریباً 1200 خواتین اور لڑکیاں جیلوں میں قید میں، جن کے خلاف یا تو مقدمات زیر سماعت ہیں یا پھر انہیں سزا ہوچکی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے طویل عرصے سے پاکستان کی جیلوں میں قید خواتین قیدیوں اور ان کے بچوں کی رہائی کے لیے مہم چلا رکھی ہے۔

واضح رہے کہ 18 سال سے کم عمر کے ایک ہزار سے زائد بچے بھی پاکستان میں قید ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین