’پرانے پاکستان‘ کے ’بوسیدہ‘ شہری کی ’متروک‘ یادداشتیں

ماضی کے اس سجیلے سنہرے دنوں میں جب نہ موبائل فون تھے، نہ سوشل میڈیا، نہ فیس بک اور نہ واٹس ایپ، ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب تھے۔

1989 کی اس تصویر  میں پشاور میں ایک فوٹوگرافر پرانے کیمرے کا استعمال کر رہا ہے (اے ایف پی)

1991 میں جب پہلی بار اوچ شریف کو ٹیلی فون کی سہولت نصیب ہوئی تو پہلے مرحلے میں ہمارا گھر بھی ان دو سو خوش قسمت گھروں میں شامل تھا جس کو ٹیلی فون کا کنکشن ملا اور ہمارا ٹیلی فون نمبر 192 تھا۔ 

ڈائریکٹ ڈائلنگ کا نظام تھا نہیں سو پہلے ٹیلی فون آپریٹر سے بات کر کے اپنا مطلوبہ نمبر ملانے کی درخواست کرنا پڑتی تھی۔ دوسرے شہر بات کرنے کے لیے ایڈوانس بکنگ کرانا پڑتی تھی۔

کیا عجیب رومانس تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتے ہی ہم سب بہن بھائیوں کی یہ کوشش ہوتی کہ ریسور اٹھانے کا اعزاز اسے ہی حاصل ہو۔ پورے محلے میں ہمارے گھر ہی فون تھا تو آئے روز اہل محلہ بھی اس سہولت کو ’پی سی او‘ کی طرح استعمال کرتے۔ ان کی اپنے پیاروں سے بات ہو جاتی اور ہمیں دلی خوشی۔ اس زمانے میں معاوضے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔

اس دور میں ہمارا گھر کچا تھا۔ کچے آنگن میں کنواری مٹی کی روح پرور باس میں بسا ایک چھوٹا سا گھر، جہاں امی بھور سمے بیدار ہوتیں۔ سردی گرمی کی پروا کیے بنا وہ نماز کی ادائی اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد صحن میں جھاڑو لگاتیں، ناشتہ تیار کرتیں اور ہمیں سکول کی تیاری کراتیں۔

سکول جانے سے پہلے ہم ابو کے کمرے میں جاتے، ان سے دو روپے بھاڑا لیتے اور سکول چلے جاتے۔ اس دور میں سکول سے چھٹی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ بڑی بہن سے ہیڈ ماسٹر صاحب کے نام چھٹی کی عرضی لکھ کر ابو سے تحریری تصدیق اور دستخط کے ساتھ ان کی مہر لگوانی پڑتی تھی جو کہ ناممکن بات تھی۔

ناشتے میں ہمیں چائے کا ایک پیالہ اور ایک روٹی ملتی تھی جو ہم چائے میں بھگو کر مزے مزے سے تناول کرتے تھے، لیکن ابو کے لیے ناشتہ چائے کے دو پیالے اور ڈالڈا گھی میں چپڑے ایک پراٹھے پر مشتمل ہوتا تھا۔ چائے جرس کی روایتی کیتلی میں ہوتی۔

 

امی ہم بہن بھائیوں میں سے کسی کو چائے سے بھری کیتلی اور پراٹھے والی چنگیر دیتیں جو ہم ابو کے کمرے میں چارپائی کے ساتھ رکھی میز پر رکھ کر امید اور آس کے ساتھ دروازے سے لگ کر کھڑے ہو جاتے کہ ابو سے واپس آنے والے برتنوں میں موجود پراٹھے کے چند ٹکڑے ہماری متاع ہوتے تھے۔ جس خوش قسمت کی ان ٹکڑوں تک رسائی ہو جاتی، باقی بہن بھائی اسے رشک سے دیکھتے۔

ہم چونکہ گھر میں سب سے چھوٹے تھے لہٰذا ابو سے بچے ہوئے پراٹھے کے چند ٹکڑے حاصل کرنے والے خوش قسمت عموماً ہم ہی ہوتے تھے۔ کچے صحن میں نیچے بیٹھ کر ٹانگیں پھیلا کر ان پر چھابی دھر لینا اور ابو کے استعمال کی کیتلی اور پیالے سے چائے پینا واقعی ایک اعزاز ہی کی بات تو تھی۔

پوری شمس کالونی میں ہمارا واحد گھر تھا جہاں سب سے پہلے ٹیلی ویژن آیا۔ 1988 کے اوائل میں ابو لکڑی کے ڈبے کا چار فٹ طویل بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی لے کر آئے تھے۔ گرمیوں میں اسے کمرے سے نکال کر صحن میں رکھنا ایک عذاب عظیم سمجھا جاتا تھا، سو ہر شام دو افراد کی باریاں مقرر ہوتی تھیں۔ ایک ہی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا۔ تین بجے سہہ پہر کو نشریات کا آغاز ہوتا۔ اس دوران سرشام ہی صحن میں چھڑکاؤ کر کے چارپائیوں کے آگے چٹائیاں بچھا دی جاتی تھیں۔

شام چار سے پانچ بجے بچوں کے پروگرام، آٹھ بجے ڈرامہ، نو بجے خبرنامہ اور شب گیارہ بجے نشریات اختتام پذیر ہو جاتیں، ’وارث،‘ ’تنہائیاں، ’جانگلوس،‘ ’عروسہ،‘ ’اندھیرا اجالا،‘ ’دھواں،‘ ’آہٹ،‘ ’عینک والا جن‘ اور’گیسٹ ہاؤس‘ جیسے ڈراموں کو دیکھنے کے لیے محلے کی عورتیں اور بچے ہمارے گھر براجمان ہوتے۔ اس دور میں پاکستانی ٹیلی ویژن ڈرامے نے اپنے ناظرین کو سحر میں لے رکھا تھا۔ تب ہماری فیچر فلمیں بھی تہذیبی زندگی اور بڑی حد تک عمومی شائستگی کا مظہر ہوا کرتی تھیں۔

پی ٹی وی کا ڈراما تفریح طبع کے ساتھ ساتھ معاشرتی تربیت کے حوالے سے ایک بہترین اتالیق، مبلغ اور مصلح کا انداز اپنائے ہوئے تھا۔ پی ٹی وی پر ہر جمعرات کو طارق عزیز کا نیلام گھر پروگرام نشر ہوتا تھا اور پھر رات گئے ایک اردو فلم بھی ضرور لگتی تھی۔ جمعتہ المبارک کو ہفتہ وار سرکاری تعطیل ہوتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


17اگست 1988 کو طیارے میں صدر جنرل ضیا الحق کی ناگہانی وفات تو ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے۔ پی ٹی وی کی خصوصی نشریات کے ذریعے پاکستان کے آنجہانی مرد آہن کی باقیات کی تلاش کے مناظر دیکھ کر ہمارے گھر کے بڑے کمرے کے ننگے فرش پر بیٹھی درجنوں محلہ دار خواتین، بڑی بوڑھیاں اور میری امی کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ یہ وہ زمانہ اور دن تھے جب ابھی معاشرتی اقدار کی اس قدر ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی تھی۔ گھروں کے ماحول میں یکجائی تھی اور سب اہل خانہ باہم مل کر ٹیلی ویژن کی نشریات سے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔

پی ٹی وی کی نشریات کو ’مکھیوں‘ سے صاف رکھنے کے لیے کمرے کی کھڑکی سے بندھے انٹینے کا ڈنڈا پھیرنے میں بھی عجیب کشش نظر آتی تھی۔ نشریات صاف نظر آنے کی تگ و دو میں انٹینے کی مخصوص تار پر ٹوینٹی سگریٹ کی ڈبی سے نکلنے والی کناری اوڑھ کر اسے گھمایا جاتا۔ 14 اگست کو یوم آزادی کی خوشی میں اسی انٹینے کے بانس پر انٹینا تھوڑا نیچے ایڈجسٹ کر کے اوپر سبز ہلالی پرچم لگا دیا جاتا تو فخر سے اپنے دوستوں کو گھر بلا کر وہ انٹینا دکھاتے رہتے اور اپنی حب الوطنی پر فخر کرتے۔

ہمارے گھر میں مہینے میں ایک بار وی سی آر ضرور منگوایا جاتا تھا۔ جب امی کی سفارشات پر ابو کے ’اوول آفس‘ سے باضابطہ طور پر رینٹ پر وی سی آر منگوانے کی منظوری ملتی تو گویا عید کا سا سماں ہوتا۔ سب سے پہلے تمام گھر والوں کی پسند کے مطابق اتفاق رائے سے فلموں کی فہرست بنائی جاتی۔ بہنیں سر جوڑ کر بیٹھتیں۔ کاٹ چھانٹ کر کے صرف پانچ فلموں کو منتخب کیا جاتا۔

اس جاں گسل مرحلے کے بعد فلم کے ان شائقین سے دس روپے فی کس کے حساب سے چندہ اکٹھا کیا جاتا۔ باقی ماندہ رقم ابو سے لے کر پوری کی جاتی۔ اس دن شام کو گھر میں بریانی کا اہتمام کیا جاتا۔ ساری رات جاگنے کے خیال سے بچے بڑے دوپہر کو ہی نیند کا کوٹا مکمل کر لیتے تاکہ رات کو فلم بینی کے دوران نیند کے جھٹکوں سے مناظر رہ نہ جائیں۔

وی سی آر لانے کی ذمہ داری عموماً ہماری اور بڑے بھائی شمیم کی ہوتی۔ ہم جوش و جذبے کے ساتھ ہاتھی گیٹ بازار کے قریب واقع منو بھائی کے ویڈیو سنٹر پر جاتے۔ رنگین ٹی وی، وی سی آر اور پانچ فلموں کا کل کرایہ اڑھائی سو روپے ہوتا تھا۔ ’عطیہ کنندگان‘ کی پسند کے مطابق فلمیں لیتے اور کرایہ کے سائیکل رکشہ پر لاد کر گھر لے آتے جہاں تزک و احتشام کے ساتھ ہمارا خیر مقدم ہوتا۔

وی سی آر لاتے ہوئے مومنوں کی ’کم نگاہی‘ اور اپنی ’بے عزتی‘ کے ڈر سے ہم اپنے چہروں پر کپڑے یا صافے کا بکل مار لیتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ رکشے کا کرایہ ہضم کرنے کے لیے وی سی آر اور کیسٹیں کپڑے میں باندھ کر اور اسے سر پر دھر کر ہم گھر تشریف لاتے۔ فلم دیکھنے کے دن 11 بجے تک وی سی آر وغیرہ دکان پر لازمی پہنچانا ہوتا ورنہ فی گھنٹہ کے حساب سے جرمانہ چارج ہوتا۔ جس جوش و جذبے سے ہم لے کر آتے۔ واپسی پر قدم من من کے ہو جاتے۔ اس کے بعد ایک ہفتے تک فلموں کی سٹوری، ہیروئن کے میک اپ اور گانوں پر تبصرے رواں رہتے۔ ہندوستانی فلمیں ’دل،‘ ’دل ہے کہ مانتا نہیں،‘ ’ساجن‘ اور’عاشقی‘ وغیرہ ابھی تک ہمارے نوسٹیلجیا میں ہمکتی ہیں۔


ریڈیو کو ہمارے گھر میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ ہمارا گھر شہر کے ان گنے چنے گھرانوں میں شامل تھا جہاں پوسٹ آفس سے ریڈیو کا لائسنس بنوانے کو فخر اور قانون پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اباجی اس سلسلے میں کوئی تساہل نہیں برتا کرتے تھے، لکڑی کی باڈی والا ریڈیو سیٹ ابو کے کمرے میں میز پر دھرا ہوتا، (جسے اب بھی ہم نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے)۔ اس دور میں ایف ایم ریڈیو کا دور دور تک نام ونشان نہیں تھا۔

ریڈیو ملتان اور ریڈیو بہاول پور کے دوش پر نشر ہونے والے اپنے پسندیدہ پروگراموں میں خطوط کے ذریعے پسندیدہ گانوں کی فرمائش کی جاتی اور جب مطلوبہ پروگرام آن ایئر ہوتا تو ہم سب بہن بھائی میزبان کے کنج لب سے اپنا نام سننے کے لیے ریڈیو سیٹ کے گرد جمع ہو جاتے۔ ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر، ساجد حسن درانی، محمد نقی، مظہر کلیم خان اور شمشیر حیدر ہاشمی اپنی خوبصورت آوازوں اور خوبصورت باتوں کے باعث اب تک ہمارے دل ودماغ میں لو دیتے رہتے ہیں۔

اسی دور میں ٹیپ ریکارڈ نامی ایک چیز بھی ہوا کرتی تھی۔ 1980 کی دہائی کے آواخر میں اباجی نیشنل کمپنی کا ایک ٹیپ ریکارڈ لے کر آئے تھے، (جو اب بھی میرے پاس محفوظ ہے) ابو طلعت محمود، کندن لال سہگل، رفیع صاحب اور لتا جی کی جانستاں آوازوں کے عاشق تھے۔ ان سب کی مدھ بھری آواز میں سرود رفتہ کی الوہی مہک لیے لازوال گیتوں کا سحر۔۔۔ اب بھی ہمیں عروضی زمانوں سے باہر لے جاتا ہے اور اداس کر دیتا ہے۔ تنہائی ہو اور ایسی سدا بہار آوازیں ہوں تو انسان کو کسی ساتھی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان سب کی آواز یقینا لافانی ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں میں ہمارے نوسٹیلجیا سے جڑی بہت سی خوبصورت چیزیں قصہ پارینہ بنیں۔ دیہات ہی نہیں شہروں میں بھی ٹھنڈے پانی کے لیے گھڑے کا استعمال عام تھا۔ یہ گھڑے لکڑی کی جن چوکیوں پر رکھے جاتے تھے انہیں گھڑونچی کہا جاتا تھا۔ آج کی نسل گھڑے اور گھڑونچی کے لفظوں سے ہی ناواقف ہے۔ اس طرح کنویں اور رہٹ کا رجحان بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ گاؤں میں ہمارے گھر جامن کے درخت کے نیچے کنواں تھا جس کا ٹھنڈا پانی روح تک کو سرشار کر دیتا تھا۔

ہر جمعہ کو امی صبح سویرے ناشتے کے ساتھ ہی دوپہر کا کھانا تیار کر کے کپڑے دھونے کے لیے رہٹ پر جاتی تھیں۔ گاؤں کی دوسری بڑی بوڑھی عورتیں بھی ہاں موجود ہوتیں۔ سب مل کر کپڑے دھوتیں، حال احوال پوچھتیں۔ ہم بچے بالے بھی کھالے میں نہانے کی عیاشی کر لیتے۔ آبائی زمینوں پر کاشت کاری کرتے چچا جان موسمی پھلوں سے ہماری خاطر تواضع ضرور کرتے۔

1992 میں تعلیم کے حوالے سے ہماری ’خستہ‘ حالت کو دیکھتے ہوئے والد بزرگوار نسیم صاحب نے ہمیں گاؤں میں بڑے بھائی شبیر احمد ناز کے پاس بھیج دیا جنہوں نے گاؤں کی تاریخ میں پہلی بار ایک سکول قائم کر کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ ایک چھپر تلے قائم یہ سکول ہماری تعلیم و تربیت کا اولین مرکز تھا۔ بھائی جان موٹر نیوران نامی مرض کے لاعلاج مریض تھے اور جسم کو حرکت دینے سے قاصر، وہ چارپائی پر ساکت لیٹے لیٹے بچوں کو پڑھاتے۔ ہم ٹاٹ پر بیٹھ تحصیل علم کرتے۔ ہمارے سمیت کسی بھی مجال نہیں تھی کہ سکول کے ڈسپلن سے ہٹ کر کوئی کام کرے۔

اس دور میں سکولوں میں قلم دوات اور تختی کا راج تھا۔ ہر بچہ لکڑی کی تختی کو روزانہ دھو کر اس پر گاچی یا ملتانی مٹی کا لیپ کر کے آتا تھا۔ لکھنے کے لیے کانے کی قلم کو خاص انداز سے گھڑا جاتا اور اردو کی خوش خطی کے لیے استعمال کیا جاتا۔ ہر بچے کے بستے میں لوہے کی سلیٹ اور اس پر لکھنے کے لیے چاک یا سلیٹی ضرور موجود ہوتی تھی۔

بھائی جان بچوں کو خوش خط اردو لکھنے کے لیے ’زیڈ‘ کی نب اور اچھی انگریزی لکھنے کے لیے ’جی‘ کی نب استعمال کراتے۔ پینافلیکس اور گرافک ڈیزائننگ کے اس دور میں یہ چیزیں اب سٹیشنری کی دکانوں پر بھی دستیاب نہیں رہیں جبکہ تختی، سلیٹ، سلیٹی اور گاچی بھی نظروں اور سماعتوں سے دور ہو چکے ہیں۔

سکول میں چھٹی سے آدھا گھنٹہ پہلے ہم چھوٹی کلاس کے بچے لہک لہک کر اور ردھم کے ساتھ ’ایک دونی دو، دو دونی چار‘ کا ایسا ورد کرتے کہ ایک فضا بن جاتی۔ آج تعلیمی نغمگی سے بھرپور یہ آوازیں ’پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب‘ کے دلکش نعرے میں دب گئی ہیں۔

خط کی لذت وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے خطوط لکھے اور وصول کیے ہوں۔ ابو شہر سے باقاعدگی کے ساتھ گاؤں میں امی اور بہن بھائیوں کو خطوط لکھتے۔ عید کارڈ بھیجتے اور اخبارات و رسائل بھیجتے۔ ان کے خطوط کے انتظار میں ہم روز گاؤں کے داخلی راستے پر کھڑے ہو کر اس بوڑھے ڈاکیے کا انتظار کرتے جو پچیس کلومیٹر دور سیت پور کے ڈاک خانہ سے ہماری ڈاک لے کر آتا۔

رسول بخش پوسٹ مین گاؤں کا ایک خوبصورت کردار تھا، جس کی سائیکل کے ہینڈل پر دو تھیلے اور کیریئر پر کچھ لفافے رکھے ہوتے۔ وہ شخص ہر ایک کا شناسا تھا۔ لیکن افسوس کہ بے ہنگم ترقی نے گاؤں میں اس کا کردار ختم کر دیا ہے، کیونکہ خط کی تہذیبی و ثقافتی روایت تاریخ کے کوڑے دان میں دفن، لیٹر بکس عہد گم گشتہ کی بھول بھلیوں میں گم، ڈاکخانے ویران، جدیدیت کی ’ماری‘ اور سوشل میڈیا کو ’پیاری‘ نئی نسل خطوط نویسی سے وابستہ سرشاریوں، بے قراریوں اور وارفتگیوں سے ناآشنا اور 150 سالہ بوڑھے محکمہ ڈاک نے نومولود انٹرنیٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ ماضی کے اس سجیلے سنہرے دنوں میں جب نہ موبائل فون تھے، نہ سوشل میڈیا، نہ فیس بک اور نہ واٹس ایپ، ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب تھے۔ تخلیقی ہم آہنگی، بے ساختگی، باہم روابط کی خوشی اور گرم جوشی زیادہ ہوتی تھی۔ اب رابطے کی تمام تر سہولیات کے باوجود لگتا ہے کہ باہم تعلقات میں مطلب براری کی آمیزش ہو گئی ہے۔ ایک عجیب نوع کی غیریت، مصنوعی پن اور ایک اتھلاپن سا آ گیا ہے۔ اب جہاں ہم ترقی یافتہ بن چکے ہیں، وہاں اپنی خوبصورت روایات کے حوالے سے قحط الرجالی بھی ہمارے مقدر میں آئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ