مولانا اعظم طارق قتل کیس: 17 سال بعد بھی قاتلوں کا پتہ نہ چل سکا

مولانا اعظم طارق 2003 میں اسلام آباد میں قتل ہو گئے تھے لیکن آج تک ان کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔

مولانا اعظم طارق کے قتل کے بعد ملک بھر میں توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے تھے (اے ایف پی)

17 سال پہلے 2003 میں چھ اکتوبر آج کے دن، کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی مولانا اعظم طارق کو کشمیر ہائی وے اسلام آباد پر قتل کر دیا گیا۔ راکٹ حملے اور بم دھماکے میں بچ جانے والے اعظم طارق پر تیسرا حملہ جان لیوا ثابت ہوا جس میں انہیں 42 گولیاں لگیں۔

مولانا اعظم طارق اور ان کے چار محافظوں کے مقدمہ قتل پر17 سال گزرنے کے بعد مزید کارروائی روک دی گئی۔ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے چار ملزمان کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری یا از خود پیش ہونے تک مقدمے کی فائل کو بند کرتے ہوئے داخل دفتر کر نے کا حکم جاری کر دیا۔ گذشتہ سال نومبر میں عدالت نے آخری زیر حراست ملزم محسن نقوی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا، نیز ابھی تک ایف آئی آر میں شامل کسی بھی ملزم کو سزا نہیں سنائی گئی۔

تفتیش اور عدالتی کارروائی کے بعد سات ملزمان کو ناکافی شواہد، عدم ثبوت اور شک کا فائدہ دیتے ہوئے مقدمے سے بری کر دیا گیا تھا جن میں اہم نام کالعدم تحریک جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد نقوی، سابق ایم این اے نواب امان اللہ سیال اور علامہ سید سبطین کاظمی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعدکالعدم اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے مطالبہ کیا تھا کہ مولانا اعظم طارق قتل کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے لیکن اس مطالبے پر عمل در آمد نہیں ہوا۔
ان17 سالوں میں مقدمے کے تین ملزمان کے سر کی قیمت بھی مقرر کی گئی۔ مقدمے کے مفرور ملزمان میں سر فہرست نام امجد عباس شاہ عرف بخاری کا ہے جس کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔ امجد شاہ کا مبینہ تعلق کالعدم سپاہ محمد سے تھا، اور انہیں قتل کے مرکزی ملزمان میں شمار کیا جاتا ہے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق وہ 2004 میں رشید آباد، ملتان میں مولانا اعظم طارق کی برسی پر منعقدہ جلسے میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی ملوث تھے جس میں 39 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس دھماکے کے مقدمے میں بھی امجد شاہ کو اشتہاری ملزم قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اور اہم نام ملزم رضوان علی کا ہے، پولیس ریکارڈ کے مطابق اس کا تعلق امامیہ سٹوڈنٹس فیڈریشن سے تھا۔ ملزم کے سر کی قیمت ایک لاکھ روپے مقرر کی گئی اور وہ بیرون ملک مفرور ہے۔ ملزم رضوان علی کے انٹر پول کے ذریعے ریڈ نوٹس بھی جاری ہو چکے ہیں۔

1997 میں رضوان علی کو جھنگ میں جنرل ضیاء الحق کے سٹاف ممبر کیپٹن (ر) ماجد رضا گیلانی کے قتل کی ایف آئی آر میں بھی نامزد کیا گیا اور بعدازاں اشتہاری قرار دیا گیا۔ اعظم طارق قتل کیس میں ملزمان سید کاشف علی رضا، اسد عباس، سید کلب عباس کاظمی، سید سلیم حیدر زیدی، معجز عباس رضوی اور سید محمد عسکری عابدی مطلوب رہے۔ سندھ پولیس کی ریڈ بک کے مطابق ان میں سے موخر الذکر چار نام کراچی پولیس کو مفتی نظام الدین شامزئی قتل کیس اور دیگر فرقہ وارانہ کارروائیوں میں بھی مطلوب ہیں۔ وفاقی حکومت کی جاری کردہ ’مطلوب دہشت گردوں کی فہرست‘ کے مطابق ملزمان سید کاشف علی رضا، سید کلب عباس کاظمی اور اسد عباس ہمسایہ ملک ایران میں مفرور ہیں۔
ایف آئی آر میں اہم نام علامہ سید سبطین کاظمی کا تھا جنہیں اسلام آباد ایئر پورٹ سے مئی 2017 میں گرفتار کیا گیا۔ انہیں جون 2010 میں اس مقدمے میں باقاعدہ اشتہاری قرار دیا گیا تھا اور سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔ سبطین کاظمی کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ انہیں اسی مقدمہ میں مفرور ہونے کی بنا پر 2013 میں بغداد ایئر پورٹ پر بھی انٹرپول نے پوچھ گچھ کے لیے روکا تھا۔

ماضی میں وہ ایک کالعدم تنظیم کے اہم عہدیدار رہے ہیں اور ان کا شمار علامہ ساجد نقوی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ اس گرفتاری کے بعد اعظم طارق قتل کیس پر ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بھی بنائی گئی، لیکن بعد ازاں عدالتی کارروائی میں انہیں بری کر دیا گیا۔

علامہ سبطین کاظمی نے بری ہونے کے بعد شکوہ کیا کہ جس طرح میڈیا نے گرفتاری کی خبر نشر کی تھی اب اسی طرح بری ہونے کو بھی اتنی ہی کوریج دی جائے۔ علامہ سبطین کاظمی کی بریت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ ڈویژن بینچ میں کی گئی نظر ثانی اپیل زیر سماعت ہے۔ گذشتہ سال نومبر میں سید سبطین کاظمی کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر برطانیہ روانگی کے وقت ایئر پورٹ سیکورٹی فورس نے ’آف لوڈ‘ کرنے کی کوشش کی جس پر علامہ سبطین کاظمی نے وزارت داخلہ اور انٹرپول کے کلیئرنس لیٹرز پیش کیے۔ اس موقعے پر علامہ ساجد نقوی اور دیگر شیعہ رہنماؤں نے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ٹیلی فونک مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں سید سبطین کاظمی کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی۔  
گذشتہ سال نومبر میں رہائی پانے والے ایک اور ملزم محسن نقوی کو 2010 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ریکارڈ کے مطابق وہ کافی عرصہ ہمسایہ ملک ایران میں مفرور رہے اور پاکستان آمد پر گرفتار ہوئے، بعد ازاں عدالت نے انہیں بری کرنے کا حکم دیا۔ 2011 میں ایک اور ملزم حماد ریاض نقوی کو بھی عدالت نے مناسب ثبوت نہ ہونے پر بری کیا جسے2007 میں کراچی پولیس نے پولیس مقابلے کے بعد گرفتار کیا تھا۔ 2010 میں عدالت نے مزید دو ملزمان مدثر علی اور محمد علی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا۔

کالعدم تحریک جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد نقوی اور سابق ایم این اے امان اللہ سیال پر اعانت جرم کا الزام تھا اور انہیں عدالت نے نومبر 2004 میں بے گناہ قرار دے دیا۔ ان دونوں شخصیات کی بریت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ میں اپیل بھی دائر کی گئی لیکن اسے 2015 میں خارج کر دیا گیا۔

اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ میں قتل کی ایف آئی آر درج کروانے والے مولانا اعظم طارق کے بھائی مولانا عالم طارق نیشنل ایکشن پلان کے زیر اثر کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں اس وقت زیر حراست ہیں۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد 2015 میں جیل میں قید دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت مولانا عالم طارق کو کالعدم لشکر جھنگوی کے سزائے موت پانے والے غلام شبیر عرف ڈاکٹر کی تلمبہ خانیوال میں ہونے والی نماز جنازہ میں شرکت پر گرفتار کیا گیا تھا۔

چیچہ وطنی ساہیوال کے راجپوت خاندان سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ مولانا اعظم طارق تین بار قومی اسمبلی اور تین ہی مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتے۔ مولانا اعظم طارق کے انتخابی حلقہ جھنگ شہر سے ان کے بیٹے محمد معاویہ اعظم طارق 2018 کے عام انتخابات میں 65 ہزار ووٹ لے کر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ محمد معاویہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں عمران خان حکومت کے اتحادی بھی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ