جھوٹے سیاست دانوں کی کامیابی کا امکان زیادہ ہوتا ہے: تحقیق

برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ اور جرمنی کی یونیورٹی آف کونسٹنز کے محققین کی ایک نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ وہ سیاست دان جو زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، ان کے لیے کسی قسم کا عہدہ حاصل کرنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

اسرائیل میں ایک خاتون حکومت مخالف مظاہرے کے دوران ایک بینر پر 'جھوٹا' لکھ  رہی ہیں (اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا  ہے کہ وہ سیاست دان جو زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، ان کے لیے کسی قسم کا عہدہ حاصل کرنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

ایسی صورت میں کہ جب عوام امیدواروں کے پر اعتماد اور قابل قبول ہونے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہوں، یہ عوامل بعض موجودہ انتخابی نظاموں میں ایک امیدوار کو کامیابی کی طرف بڑھنے سے روک سکتے ہیں۔

برطانیہ میں یونیورسٹی آف باتھ اور جرمنی میں یونیورٹی آف کونسٹنز میں ماہرین معیشت نے 308 لوگوں پر انتخابی تجربہ کیا ہے۔

اس تجربے سے ظاہر ہوا ہے کہ سیاست میں ترقی وہ امیدوار کرتے ہیں جو 'اپنے انتخابی وعدے پورے نہ کرنے پر سب سے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔'

اس تحقیق میں ماہرین معیشت نے قابل اعتماد ہونے کی اہمیت کو آزمانے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ مختلف انتخابی مواقعے پر افراد کا ردعمل کیا ہوتا ہے، گیم تھیوری کے تجربے کا اہتمام کیا۔

ایک انتخابی عمل کے دو مراحل تھے۔ پہلے مرحلے میں وہ انفرادی امیدوار تھے جو پارٹی کی جانب سے بطور امیدوار نامزدگی کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔

یہ صورت حال امریکہ میں ہونے والے عمل سے  ملتی ہے جہاں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن جماعتیں اپنے رہنماؤں کا انتخاب کرتی ہیں۔

تب ماہرین معیشت نے تجربے میں شامل ان 'امیدواروں' سے پوچھا کہ وہ اپنی سلیکشن کے لیے کتنے بے تاب ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے وہ (100 کے حساب سے) تین پیمانوں یعنی پیسے، وقت اور کوشش پر کتنی سرمایہ کاری کریں گے تاکہ ان سب کو ملا کر وہ سلیکشن کے مرحلے سے گزر جائیں۔

وہ امیدوار جنہوں نے سب سے زیادہ سرمایہ لگایا ان کا دوسرے مرحلے میں جانے کا امکان سب سے زیادہ تھا۔

عہدے کا الیکشن لڑنے کے لیے منتخب ہونے کی صورت میں امیدواروں کو اس بات کا انتخاب کرنا تھا کہ وہ انتخابات کے دوران ووٹروں سے کتنی رقم کا وعدہ کریں گے تا کہ ان لوگوں کی حمایت حاصل کر سکیں جنہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثال کے طور پر اس کی عکاسی انتخابی مہم کے دوران ٹیکس اور اخراجات پر وعدوں سے ہو سکتی ہے۔

آخر میں، منتخب ہوجانے کی  صورت میں سیاست دانوں کو یہ طے کرنا تھا کہ انتخابی دوڑ سے باہر، حقیقت کی زندگی میں کس طرح فیصلے کریں گے۔ انہیں طے کرنا تھا کہ وہ ووٹروں کو کیا دیں گے؟ کیا وہ اپنا ذہن تبدیل کرلیں گے یا اپنے پہلے کے وعدے پورے نہیں کریں گے۔

محققین کے نتائج نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہےکہ وہ امیدوار جن کا نامزدگی کے عمل میں کامیابی کا امکان سب زیادہ رہا کیونکہ انہوں نے پہلے مرحلے  میں زیادہ سرمایہ کاری کی وہ لوگ تھے جنہوں نے عہدے پر انتخاب کے بعد سب سے زیادہ وعدہ خلافی کی۔

دوسرے لفظوں میں وہ امیدوار جو نامزدگی میں سب سے دلچسپی رکھتے تھے یہ وہی لوگ تھے جن کی جانب سے وعدہ خلافی کا امکان سب سے زیادہ تھا۔

یونیورسٹی آف باتھ کے شعبہ معاشیات کے سرکردہ محقق ڈاکٹر مائیک شناڈر نے کہا: 'ہماری تحقیق سے یہ اجاگر ہوتا ہے کہ انتخابی مہم میں ایسے امیدواروں کا پایا جانا کیوں زیادہ حیران کن نہیں ہو سکتا جو جھوٹ بولتے ہیں۔'

'سیاست میں اعتماد کی سطح کے پیش نظر ہم سب کو اس پر تشویش ہونی چاہیے۔'

'الیکٹوریٹ کے حوالے سے یہاں کھلا تضاد پایا جاتا ہے جو یہ کہتا ہے سیاست میں جو چیز ناپید ہے وہ زیادہ اعتماد ہے۔ اس کے باوجود تحقیق کے نتائج  یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جو امیدوار زیادہ جھوٹ بولتے ہیں ان کا اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح عہدہ حاصل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا: 'گیم تھیوری کے تناظر میں دیکھا جائے کہ ایسا کیوں ہے تو بات واضح ہے، لیکن ان نتائج سے امیدواروں میں موجود قابل اعتراض باتیں اور سسٹم کی بڑھتی شفافیت پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔'

محققین نے زور دیا ہے کہ ایک صورت یہ بھی ہے کہ دیانت دار افراد عہدے پر پہنچنے کے لیے وقت اور وسائل کی شکل میں سرمایہ کرتے ہیں تاہم ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اتنی تعداد میں کامیاب ہو سکیں جتنی تعداد میں ان کے زیادہ بددیانت حریف کامیاب ہو تے ہیں۔

تحقیق کرنے والی ٹیم کی رائے ہے کہ اعتماد میں بہتری کے لیے حقائق کی کہیں زیادہ بہتر طریقے سے جانچ پڑتال، انتخابی اخراجات کی شفافیت اور مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کی عوامی سطح پر محاسبے سے مدد ملے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بددیانتی کی ترغیب میں کمی لانے کے منصوبوں میں نئے طریقے شامل کیے جا سکتے ہیں تا کہ انتخابی مہم کے وعدوں پر عمل کو لازمی بنایا جا سکے۔

تحقیق میں جہاں انتخابی عمل کا پہلا مرحلہ شفاف تھا تو محققین کے علم میں آیا کہ عہدے پر ہوتے ہوئے 'جھوٹ کے سائز' اور ایک امیدوار سلیکشن کے لیے کتنا بے تاب تھا اس کے درمیان تعلق غائب ہو گیا۔

یہ تحقیق معاشیات کے جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق