تھائی لینڈ: جمہوریت کے حق میں مظاہروں کے بعد ایمرجنسی نافذ

پولیس کے مطابق مظاہروں کے آغاز سے اب تک 20 سے زائد گرفتاریاں ہو چکی ہیں، جبکہ معروف اور کلیدی جمہوریت پسند رہنما اور سرگرم افراد پر بغاوت کے مقدمے قائم کیے گئے ہیں۔

ٓ گذشتہ رات وزیر اعظم آفس کے باہر ہونے والے ایک مظاہرے میں مظاہرین اور حکومت کے حامیوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی۔(اے ایف پی)

تھائی لینڈ میں حکومت نے ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے چار سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے کو غیر قانونی اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔

حکام کی جانب سے یہ اقدامات جمہوریت کے مطالبے کے لیے کیے جانے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔

ان احکامات کا مقصد مظاہرین کی جانب سے وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ اور شاہی نظام میں اصلاحات کے لیے گذشتہ رات کیے جانے والے مظاہروں پر قابو پانا ہے۔

یاد رہے گذشتہ رات وزیر اعظم آفس کے باہر ہونے والے ایک مظاہرے میں مظاہرین اور حکومت کے حامیوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طلبہ جولائی سے سابقہ فوجی سربراہ اور وزیر اعظم پرایوت چن و چا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہوں نے چھ سال قبل فوجی بغاوت کے نتیجے میں حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔

بدھ کو مظاہروں کے دوران پولیس نے شاہی روٹ لگایا اور جب ملکہ ستھیدا اپنی لیموزین میں مظاہرین کو دیکھتے ہوئے گزریں تو مظاہرین نے تین انگلیاں بلند کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ یہ اشارہ معروف کتاب 'ہنگر گیمز' سے مستعار لیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھائی لینڈ میں بادشاہ سب سے طاقتور حیثیت رکھتے ہیں جنہیں فوج اور اشرافیہ کی حمایت حاصل ہے۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ اپنا زیادہ تر وقت یورپ میں گزارتے ہیں لیکن ان کے اہل خانہ ضروری امور کے لیے تھائی لینڈ میں موجود رہتے ہیں۔

بدھ کو پیش آنے والا واقعہ شاہی خاندان کے کسی فرد کی جانب سے کسی مظاہرے کو دیکھنے کا پہلا واقعہ ہے۔

سال 1932 سے تھائی لینڈ میں ایک درجن سے زائد کامیاب فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں اور ملک مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ صرف شاہی نظام میں اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ مظاہرین کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ شاہی خاندان سیاست میں دخل اندازی نہ کرے اور بادشاہ پر تنقید کرنے کے قوانین پر سخت سزاؤں کا خاتمہ کیا جائے۔

ڈپٹی پولیس ترجمان کسانا پتھاناچاروین کے مطابق مظاہروں کے آغاز سے اب تک 20 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ گرفتار افراد جن میں معروف اور کلیدی جمہوریت پسند رہنما اور سرگرم افراد شامل ہیں پر بغاوت کے مقدمے قائم کیے گئے ہیں۔

حکومتی ترجمان انوچا براپاچائیشری کے مطابق وزیر اعظم نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ شاہی قافلے کا راستہ روکنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاہی خاندان کو بدنام کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی اور انہیں قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔

یاد رہے بدھ کو کیے جانے والے مظاہرے 1973 کی طلبہ تحریک کی 47ویں سالگرہ کے موقعے پر کیے جا رہے تھے جب 77 افراد کو مظاہرہ کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا